الوقت - بحرین کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ شیخ عیسی قاسم کیی شہریت منسوخ کئے جانے پر پوری دنیا سے رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران اور عراق سمیت دنیا کے مختلف ممالک اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے آل خلیفہ حکومت کے سا اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی ترجمان روینا شامداسانی نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں کہا کہ چونکہ بحرین کے ممتازعالم دین شیخ عیسی قاسم کے خلاف عدالتی کارروائی انجام نہیں پائی اور دفاع کا حق نہیں دیا گیا ہے اس لئے ان کی شہریت سلب کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور یہ ایک ناحق اور غلط اقدام ہے- حزب اللہ لبنان نے شہریت کی منسوخی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آل خلیفہ حکومت کو نتائج کی بابت خبردار کیا ہے۔ بحرین میں مذہبی رہنماؤں نے شیعوں کے بزرگ مرجع تقلید اور ممتاز عالم دین کے خلاف آل خلیفہ حکومت کی دیوانے پن کی کارروائی کے انجام کی جانب سے خبردار کیا ہے۔
مرآۃ البحرین ویب سائٹ کے مطابق، بحرین کے علماء دین نے بدھ کو ایک بیان میں اس ملک کے شیعہ مرجع تقلید شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کرنے کی آل خلیفہ حکومت کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آل خلیفہ حکومت کا شیخ قاسم کو نشانہ بنایا، اس ملک کے شیعوں پرجارحیت کی طرح ہے۔ در ایں اثنا عراق کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ سید علی سیستانی نے بھی آل خلیفہ حکومت کی جانب سے شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کئے جانے کی مذمت کی اس حکومت سے فرقہ وارانہ تعصب سے پرہیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بحرین کی وزارت داخلہ نے پیر کو شیخ عیسی قاسم پر فرقہ واریت کے فروغ دینے کا بے بنیادی الزام عائد کر ان کی شہریت منسوخ کر دی تھی ۔ بحرین میں فروری 2011 سے آل خلیفہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک کا سلسلہ جاری ہے- بحرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تازہ ترین صورت حال کے سلسلے میں پیش کی جانے والی نئی رپورٹوں میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ بحرین میں دوہزارسولہ میں حالات مزید ابتر ہوگئے ہیں -
بحرین میں آزادی کی خلاف ورزی، سرگرم سیاسی شخصیتوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری اور ڈکٹیٹر حکومت کے مخالف گروہوں اور پارٹیوں کو مٹانے اور ختم کرنے کے لئے ماحول تیار کرنے کے اقدامات نے بحرینی حکومت کی ظالمانہ ماہیت کو پہلے سے زیادہ نمایاں کر دیا ہے-
بحرینی حکومت عوامی تحریک کو کنٹرول کرنے کے لئے ہر حربے، پالیسی اور ہتھکنڈے کو استعمال کر رہی ہے تاکہ مخالفین کو اس ملک کے سیاسی و سماجی میدان سے دور رکھے اور بحرینی مخالفین کی شہریت سلب کیے جانے کے عمل کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بحرینی باشندوں کی شہریت سلب کرنا اور غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا اصل ہدف اس ملک کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے- بحرینی شہریوں کے حقوق کی پامالی اور انھیں اپنے وطن میں زندگی بسر کرنے کے حق سے محروم کرنے کے آل خلیفہ کے اقدامات انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی شمار ہوتے ہیں اور انسانی حقوق کے ادارے اور تنظیمیں تاکید کے ساتھ کہتی ہیں کہ انسانی حقوق کے سلسلے میں بحرینی حکومت کا ریکارڈ دنیا میں سب سے زیادہ خراب ہے-
بحرین کی حکومت نے آيت اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت سلب کر لی جس پر پوری دنیا میں صدائے احتجاج بلند ہوئي اور جن حکومتوں نے اس غیر قانونی اقدام کی مذمت نہيں بھی کی وہ بھی اس سلسلے میں خاموش رہیں لیکن سعودی عرب کی وزراء کونسل نے ریاض میں اپنی حالیہ نشست کے اختتام پر ، بحرین کی حکومت کے اس اقدام کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ مجموعی طور پر اگر بحرین میں سعودی عرب کی مداخلتوں اور مخالفوں کے سلسلے میں آل خلیفہ حکومت کے اقدامات میں شدت پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے منامہ کی حکومت سعودی عرب کے نقش قدم پر چل رہی ہے اور اس کے احکامات پر عمل کرتی ہے لیکن غالبا آل خلیفہ حکومت کو یہ احساس نہیں ہے کہ وہ سعودی عرب کے نقش قدم پر جتنا آگے بڑھ رہی ہے اتنا ہی ایک تاریک غار میں سماتی جا رہی ہے اور اس غار سے نکلنے کا کوئي راستہ نہيں ہے کیونکہ بحرین کے انقلابیوں نے اب تک ہر طرح کا تشدد اور ہر طرح کے ظلم برداشت کئے لیکن اپنی تحریک کو امن کے راستے سے ہٹنے نہيں دیا لیکن اب پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے کیونکہ بحرین کی حکومت ، اہم انقلابی رہنماؤں کی شہریت ختم کرنے اور انہيں بحرین سے نکالنے کے در پے ہے اس لئے یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ بحرینی انقلابی ، کب تک پرامن تحریک کے پابند رہيں گے ؟