الوقت - اقوام متحدہ کے ادارے برائے تارکین وطن (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہے کہ دنیا میں جنگوں اور تنازعات کے سبب بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد اپنی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ادارے کے مطابق 2015 کے آخر تک دنیا بھر میں تارکین وطن، پناہ گزینوں اور اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد 6 کروڑ53 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جو کہ ایک سال میں 50 لاکھ کا اضافہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ہر13 میں سے ایک آدمی بے گھر ہے۔
دریں اثناء پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ اس سنگین بحران سے نبرد آزما یورپ میں’غیر ملکیوں سے نفرت کا ماحول‘ پریشان کن ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نقل مکانی کے سبب سے بڑے سیلاب سے انتہاء پسند دائیں بازو کی جماعتوں اور متنازع امیگریشن مخالف پالیسیوں کو وسیع حمایت ملی ہے۔ عالمی یوم تارکین وطن کے موقع پرجاری کی جانے والی سالانہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار پناہ گزینوں کی تعداد 6 کروڑ سے بڑھ گئی ہے۔ ان 6 کروڑ 53 لاکھ افراد میں سے نصف تعداد کا تعلق تین جنگ زدہ ممالک شام، افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یورپ میں پناہ گزینوں کے بحران پر زیادہ تر توجہ کے باوجود 86 فیصد پناہ گزیں کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں مقیم ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے پناہ حاصل کرنے کے لئے جرمنی کو سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ ملک پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لئے کتنا تیار ہے۔
انٹر نیشنل آرگنائیزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق سمندر کے راستے ایک لاکھ 11 ہزار سے زائد پناہ گزین یورپ کے ساحلوں پر اترے جبکہ دوسرے ادارے اس تعداد کو زیادہ بتاتے ہیں۔ آئی او ایم کے مطابق زمینی راستے سے تقریبا 35 ہزار افراد یورپ پہنچے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی پسندیدہ منزل جرمنی اور سویڈن جیسے امیر ممالک ہیں۔ اس بحران سے یورپی یونین کے ممالک میں سیاسی اختلافات پیدا ہوئے ہیں اور بعض ممالک نے اپنی سرحدوں پر باڑ لگانے یا پھر سے سرحدوں کے ضوابط عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک علاحدہ بیان میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ یورپی لیڈر تعاون کرنے کی پالیسیوں اور پناہ گزینوں کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی تاثرات سے لڑنے کے لئے زیادہ کوشش کریں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے 2015 میں3.65 ملین افراد بے گھر ہوئے جبکہ 2014 میں یہ تعداد 5.59 ملین تھی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس تعداد میں حیرت انگیز طور پر ہونے والا اضافہ شدید انسانی مصائب کی عکاسی کرتا ہے۔ مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فیلیپو گرانڈی کا کہنا ہے کہ ’’مزید افراد جنگوں اور مظالم کے سبب بے گھر ہورہے ہیں اور یہ بذات خودپریشانی کی بات ہےلیکن ان عوامل میں بھی اضافہ ہو رہا ہےجو مہاجرین کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
مہاجرین کی نصف سے زیادہ تعداد بچوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے کم از کم ایک لاکھ ایسے ہیں جو یا تو تنہا سفر پر ہیں اور یا وہ بچے ہیں جو2015 میں حادثاتی طور اپنے والدین سے بچھڑ گئے تھے۔ گزشتہ 5 سال میں جبرا نقل مکانی کی شرح میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہوا ہے کیوں کہ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرنے والے حالات میں تبدیلی نہیں آرہی اور ایسی صورت و حالات تواتر سے وقوع پزیر ہورہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سرد جنگ کے بعد بے گھر افراد کو در پیش مسائل کا حل تلاش کرنے کا رجحان کم ہوا ہے۔ سیاسی پناہ کے لئے دائر کردہ درخواستوں کے حوالے سے بھی 2015 ایک ریکارڈ سال رہا ہے۔ جرمنی میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ یعنی 4 لاکھ 40 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔
ترکی پناہ گزینوں کی اب تک کی سب سے بڑی تعداد یعنی تقریبا 5.2 ملین افراد کا میزبان رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر مہاجرین کی نصف تعداد تین ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔ شام، افغانستان اور صومالیہ جن میں شام سے 9.4 ملین، افغانستان سے 17.2 ملین اور صومالیہ سے 1.1 ملین افراد نے ہجرت کی ہے۔