الوقت - ایک امریکی اخبار نے کچھ ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے میں ایک سعودی مبلغ کا ہاتھ رہا ہے۔
فروری 2004 میں امریکی تفتیشی افسروں نے لاس آنجلس میں ایک سعودی سفارتکار ’’فھد الثمری‘‘کی تفتیش کی جس پر الزام تھا کہ اس واقعے کے بارے میں اس کاؤنلسر کے ذریعے کسی نتائج تک پہنچا جاسکتا ہے۔
مسلسل تفتیش کے بعد بھی الثمری نے اپنے کو ہر قسم کے الزام سے بری ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔
اس کے فون ریکارڈز بھی سامنے پیش لائے گئے لیکن الثمری نے ان کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا یہ سب مجھے بدنام کرنے کے لئے ہورہا ہے۔
تحقیقاتی افسروں نے رپورٹ دی کے الثمری جھوٹ بول رہا ہے لیکن وہ اپنے دعوے کے لئے کوئی دلیل پیش نہ کرسکے۔
آج ۱۵ سال گزرجانے کے بعد دوبارہ اس موضوع کو سامنے لایا جارہا ہے کہ کہیں سے سعودیوں کا ہاتھ اس حملے میں تو نہیں ہے؟ مذکورہ بیان کو ’’۲۸ صفحہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
امریکی سیاست داں ان صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد کہتے ہیں اس وقت بھی الثمری اور حادثے کے درمیان رابطہ بہت ہی عجیب غریب ہے۔ اگر بعض افراد کے کہنے کے مطابق اس حادثے میں سعودی شہریوں کا ہاتھ تھا تو یقینا وہ رابطہ ’’الثمری‘‘ ہی رہا ہے۔
سی آئی اے کے سربراہ ’’جان برنن‘‘ کے مطابق: اگر چہ ۲۸ صفحہ کو منظر عام پر لانا نہیں چاہئے تھا لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سعودی عرب اس حادثے میں ملوث رہا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ہم اپنی تحقیقات میں اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اس حادثہ کا ذمہ دار القاعدہ گروہ اور بن لادن رہا ہے۔
نیویارک ٹائیمز کے بقول کہانی اس وقت شروع ہوئی جب ۱۵ جنوری ۲۰۰۰ میں سعودی عرب کے دو باشندے لاس آنجلس انٹر نیشنل ائیرپورٹ پہنچے اور تقریباً ڈیڑھ سال بعد یہ دونوں ہوائی جہاز کے اغواکار نکلے جنہوں نے پنٹاگون کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق وہ نہ تو افراطی تھے اور نہ ان کو انگلش آتی تھی، اور نہ ہی انھوں نے امریکہ میں زندگی گزاری تھی۔
بعض رپورٹ کے مطابق ان دونوں کی اسی ملک فھد مسجد میں آمد و رفت رہتی تھی جس کے الثمری پیش نماز تھے۔
وہ مسجد کے قریب کسی ہوٹل میں عمر البیومی سے ملے بھی تھے، البیومی کا کام کیلیفورنیا میں سعودی عرب کے مخالفین پر نظر رکھنا تھا۔
البیومی نے اس ملاقات کو بالکل اتفاقی قرار دیا ہے لیکن تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ الثمری نے مذکورہ ملاقات کا انتظام کیا ہو۔
الثمری نے البیومی سے کسی بھی ملاقات کا انکار کیا ہے لیکن عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ دو سال میں ۲۱ بار ایک دوسرے سے فون پر گفتگو کرچکے تھے۔
نیویارک ٹائیمز کے بقول بیومی کی عمر اس وقت 42 سال تھی اور اس نے ان دونوں اغواکاروں کے لئے جگہ کا انتظام کیا تھا اور ڈپازٹ کے علاوہ ایک مہینے کا کرایہ بھی ادا کیا تھا۔
FBI کے سابق عہدیدار ریچرڈ لمبرٹ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ مجھے نہیں لگتا کہ ان دونوں کی ملاقات اتفاقی رہی ہوگی۔
مزید کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ انھیں امریکہ میں حمایت کی ضرورت تھی چونکہ نہ تو ان کو انگلش آتی تھی اور نہ ہی کوئی مکان کا اپنے لئے انتظام کرسکتے تھے وہ اپنی فیلڈ میں ماہر نہیں تھے۔
امریکی سینیٹ نے گزشتہ ماہ ایک قانون نافذ کیا کہ امریکی حکومت کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ سعودی حکومت کی مزید تحقیقات ہونی چاہئے۔ امریکی پارلمینٹ کے ممبران بھی اگلے ہفتے مذکورہ قانون کی منظوری کے خواشمند ہیں۔
پارلمینٹ کی ۱۱ ستمبر کمیٹی کے سربراہان’’ٹومس اس کان‘‘ اور ’’لی ھمیلٹن‘‘ کے بقول اس سلسلے میں الثمیری کی مداخلت کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ہے لیکن اب تک الثمری وہ واحد شخص ہے جو مذکورہ کیس میں ملزم کہلایا جاسکتا ہے۔
مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہم کو اب تک کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا کہ جس کے ذریعے ہم کہہ سکیں کی سعودی عرب حکومت نے القاعدہ کی مالی امداد کی ہو۔
لیکن آج کمیٹی کے بعض ممبران کا کہنا ہے کہ البتہ اس رپورٹ سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا ہے کہ دیگر سعودی افراد اس مالی امداد میں شامل نہیں رہے ہوں گے۔
مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ الثمری کا ویزا ۲۰۰۳ میں ہی انتہا پسند مبلغ ہونے کی بناپر باطل قرار دیا جاچکا تھا اور جب وہ لاس آنجلس جانے کا ارادہ رکھتے تھے تو دو دن تک حراست میں رکھنے کے بعد انہیں سعودی عرب واپس کر دیا گیا تھا لیکن اس رات الثمری نے یہ بات بھی کہی تھی کہ اس نے جان بوجھ کر دہشت گردوں کی مدد نہیں کی تھی۔
۱۱ ستمبر کمیٹی کے دو تفتیشی آفیسرز کہتے ہیں کہ تفتیش کے دوران الثمری نے کہا ہے کہ اس حادثے کے بعد امریکہ اور سعودی عرب دونوں جگہوں پر امن و صلح کا پیغام پہنچاتے رہے ہیں، الثمری نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں امریکہ اور سعودی عرب حکومت کے درمیان زیادہ سے زیادہ مفاہمت پیدا ہو چونکہ دہشت گردی سب کے لئے نقصان دہ ہے۔