الوقت - طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس گروپ نے جو چار فریقی گروپ یعنی افغانستان، پاکستان، چین اور امریکا کی درخواست پر چار مرحلے کے گزشتہ امن مذاکرات میں شریک ہوا، افغان حکومت کے ساتھ براہ راست پانچویں امن مذاکرت کے انعقاد کے بارے میں ایک بیان جاری کرکے کہا کہ گزشتہ مذاکرات میں ان کے مطالبات پورے نہ کئےجانے کی وجہ سے وہ اگلے امن مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔
اس گروپ نے اپنی پیشگی شرط پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء، آزاد انتخابات کے انعقاد اور آئین میں تبدیلی، اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے اس گروہ کا نام خارج کرنے اور اپنے قیدیوں کی آزادی سے ہی افغانستان میں امن و استحکام کا قیام ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے افغان امن مذاکرات کے پانچویں مرحلے میں شرکت نہ کرنے پر مبنی بیان جاری کرتے ہوئے پورے افغانستان میں عمری نامی آپریشن شروع کئے جانے کی خبر دی۔ گرچہ یہ گروپ افغانستان کے زیادہ تر علاقوں میں اپنے مقاصد یعنی علاقوں پر کنٹرول کرنے کو حاصل نہ کرسکا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے آپریشن پر بدستور تاکید کر رہا ہے۔
ان حالات میں امن مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، افغان حکومت اور سیکورٹی اداروں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے طالبان کی سرکوبی کا مطالبہ کیا۔ طالبان کی سرکوبی پر مبنی افغان صدر اشرف غنی کے حکم سے پتا چلتا ہے کہ امن مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ افغان حکومت کی جانب سے یہ حکمت عملی کابل میں وزارت دفاع اور قومی سیکورٹی کے ہیڈکواٹر کے قریب ہونے والے شدید بم دھماکے بعد اختیار کی گئی جس مں 67 افراد جاں بحق اور 347 زخمی ہوئے تھے۔
طالبان کی سرکوبی میں افغان حکومت کی اعلان شدہ پالیسی کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان سے جد جہد، ان شہروں اور صوبوں کی حفاظت جہاں پر طالبان حملے کرتے ہیں، افغانستان کی بحران زدہ حکومت کی ترجیحات میں نہیں رہی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ شمالی علاقوں ( قندوز، فاریاب، جوزجان و ...) اور جنوبی علاقوں ( ننگرہار، ہلمند، زابل، قندھار ....) میں مسلسل جنگ طالبان کے مفاد میں جا رہی ہے۔ افغان حکام، اقتدار کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں، یہ ایسا اقتدار ہے جو کابل کی سیکورٹی کو بھی یقینی نہیں بنا سکتا۔ درحقیقت کابل کے مرکز میں گرین زون علاقے اور ایوان صدر نیز امریکی سفارتخانے اور وزارت دفاع کی عمارت کے نزدیک ہونے والے شدید حملے نے یہ واضح کر دیا کہ افغان حکومت کے ساتھ طالبان بر سر پیکار ہیں اور نام نہاد امن مذاکرات کا کوئی واضح اور روشن افق نظر نہیں آتا۔
قومی اتحاد کی حکومت کی صورتحال
افغان حکومت کے لئے سب سے اصل چیلنج جو موضوع ہے وہ قومی اتحاد کی حکومت کی قانونی حیثیت ہے۔ گرچہ قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل، داخلی جنگ اور سیاسی بحران کے خاتمے کے لئے بہت اہم تھی لیکن 20 مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کچھ مسائل پر اب بھی مفاہمت نہیں ہو سکی ہے جو اشرف غنی کی حکومت کے لئے ایک چیلنج تصور کیا جاتا ہے۔
ظاہری شکل
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کابل پر طالبان کا حالیہ خطرناک حملہ، طالبان کے ساتھ مذاکرت کے تابوت پر آخری کیل تھی۔ اشرف غنی نہ صرف یہ کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور ایک سمجھوتے تک پہنچنے میں نہ صرف یہ کے کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ان کے ہاتھ سے ملک کا ایک بڑا حصہ نکل بھی گیا ہے۔ ملا محمد عمر کے نام سے طالبان کا ہونے والا (عمری ) آپریشن پوری آب و تاب سے جاری ہے اور انہوں نے اس کے تحت گزشتہ ایک عشرے کے دوران اہم اور بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔
ان حالات میں امن مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی اور جو کچھ بھی ہے وہ جنگ ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ بہرحال طالبان کے ساتھ جنگ اور ان سے مذاکرات ، عملی طور پر دونوں ہی ناکام ہو چکے ہیں اور اشرف غنی کے پاس طالبان سے مذاکرات اور ان سے صلح کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہ جاتا۔