الوقت – امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دورے حکومت کا پہلا دورہ معین ہدف کے ساتھ شروع کیا۔ اس سفر کا مقصد، امریکا کو مشرق وسطی میں دس سالہ فوجی مداخلت سے آزاد کرنا اور اس چیز پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہے جسے امریکا دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام دیتا ہے۔ امریکی صدر کا دورہ صدارت ختم ہونے والا ہے دہشت گردی کے خطرے کا گھنٹی امریکا میں ایک بار پھر بجنے لگی۔ امریکا میں ایک بار پھر دہشت گردی کا جن چراغ سے نکل گیا۔ اس مسئلے پر ایک مختصر تبصرہ ضروری ہو گیا۔
علاقے کے حالات روز بروز پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور پرتشدد واقعات، انتہاپسندی، حکومتوں کی خلاف ورزیاں اور اسی اقتدار میں واقع خلا کی وجہ سے اتحاد میں شدت پیدا ہوگئی اور امریکی حکومت کی صحیح اسٹراٹیجی کی وجہ سے مذمت کی گئی۔ شروعات میں ٹارگیٹیڈ دہشت گرد مخالف اقدامات، ڈرون حملے، مطلوب افراد کا پیچھا کرنا، اسپیشل آرمی اور سائبر حملے سے اقدامات محدود ہوگئے لیکن اگست 2014 میں داعش کے خلاف اعلان جنگ سے اب تک ان حملوں کا دائرہ وسیع ہوا اور اس مرحلے میں فضائی حملے، زمینی فوج کی کاروائیاں گرچہ مشاورت کی حد تک ہی کیوں نہ ہو، باغیوں کو ٹریننگ، وغیر سب کچھ شامل ہو گئے ہیں۔
در حقیقت امریکی صدر باراک اوباما نے جب یہ اعلان کیا کہ القاعدہ شکست سے راستے پر ہے، اس کے دو سال بعد امریکا نے داعش کے خلاف فوجی مداخلت شروع کی۔ امریکا نے ایک وسیع اتحاد تشکیل دیا تاکہ داعش کے خطروں سے مقابلہ کیا جا سکے۔ اس اتحاد کو قانونی شکل دینے ککے لئے امریکی حکومت کے لئے ضروری تھا کہ وہ عرب ممالک کی حمایت حاصل کرے۔ ان سب سے باوجود کچھ داعش مخالف اتحاد کے کچھ عرب ممالک نے امریکی پالیسیوں پر بدگمانی کا اظہار کیا جو داعش کو نشانہ بنا رہا تھا لیکن شام کی حکومت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔
اس طرح سے سعودی عرب، ترکی اور قطر جیسے اتحاد میں شامل کچھ ممالک کا پارہ چڑھ گیا اور ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور ان ممالک نے شام کے باغیوں اور حکومت مخالفین کی یک طرفہ مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ در اصل وہ اس بات سے تشویش میں مبتلا تھے کہ امریکا کی فضائی طاقت، ایران اور اس کے حامی فوجیوں کی مدد کرے تاکہ عراق میں زمینی پیشرفت کریں۔
در ایں اثنا دہشت گردی کے خطرے نے ایک عجیب اتحاد کو شکل دے دیا۔ ایک جانب امریکا کا روایتی سیاسی اتحادی اسرائیل تھا اور دوسری جانب خلیج فارس کے ہمسایہ ممالک تھے۔ داعش کے خلاف جنگ میں آمریکا ایران کے ساتھ بھی تعاون کرنے کو تیار تھا۔ جیسا کے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے نام امریکی صدر کے مراسلے میں آیا تھا۔ نومبر 2014 کے شروع میں شائع ہونے والے اس مراسلے میں مشترک دشمن کے خلاف جنگ پر تاکید کی گئی تھی۔
بہرحال اوباما نے وعدہ کیا تھا وہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو صاف و شفاف بنائیں گے اور اس کی ذمہ داری خود ان کے ہی ہاتھ مین ہوگی لیکن شام اور عراق میں نا محدود ہوائی حملوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ اب تک دونوں ہی مسئلے میں ناکام رہے ہیں۔ در حقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کا دعوی کرنے والا امریکا داعش کو شکست دینے میں اب تک ناکام ہواہے اس کی ناکامی کے اسباب کو برملا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سمجھ سکے کہ دہشت گردی سے حقیقی جد جہد کے بعد ہی اس مصیبت کی بیخ کنی کی جا سکتی ہے۔