الوقت - وہ سب سے پہلے عراق کے جرف الصخر اور آمرلی میں ظاہر ہوئے پھر الرمادی میں دکھے، اس کے بعد شام کے صوبہ ادلب اور حلب میں دکھائی دیئے۔ آج کل فلوجہ کی کاروائی میں فوجی مشیر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ایسا شخص تھا جس نے سب سے پہلے امریکا سے مقابلہ کیا اور اب تکفیری دہشت گردوں سے لوہا لے رہے ہیں۔ آج وہ تکفیری دہشت گردوں اور ان حامیوں کو دانت کھٹے کئے ہوئے ہیں۔ جنگ کی شدت میں سب سے زیادہ محفوظ جگہ ہے، جی ہاں وہ کوئی اور نہیں ایران کی قدس بریگيڈ کے کمانڈر قاسم سلیمانی ہیں۔
ایران کے اس پچاس سالہ فوجی کمانڈر نے اپنی شجاعت کے جوہر کئی معرکوں میں دکھائے۔ سب سے پہلے اس کمانڈر نے جوانی کی حالت میں ایران-عراق جنگ میں شجاعت دکھائی اور امریکا کی جانب سے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کئے جانے کے باوجود، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سلیمانی سے ملاقات کی آرزو کی لیکن اپنی سادہ لوح زندگی کی وجہ سے کبھی بھی میڈیا کے سامنے نہیں آتے۔ ان کی نظر میں امریکا سے جد جہد، داعش سے جد و جہد کے لئے ضروری ہے۔ میڈیا میں زیادہ ظاہر نہ ہونے والا اور شور و غل سے دور، میڈیا کے ہنگاموں سے دور، خاموش دنیا کا باسی، مسکراتا چہرا، اس سب سے باوجود وہ عالمی اور عرب میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ امریکا کی نیوزویک میگزین نے اپنے کور پیج پر قاسم سلیمانی کی تصویر شائع کی اور عنوان دیا، انتقام کا دیوتا، امریکوں کا قاتل اور اب داعش کو تباہ کر رہا ہے۔ قاسم سلیمانی کی شخصیت عرب اور مسلمان جوانوں کے دماغ میں رچ بس گئي ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اہم کمانڈر گزرے ہیں۔ صوبہ کرمان کی 41 ویں بٹالین سے لے مشرقی سرحد کی حفاظت پر مامور فوجیوں تک۔ ایران کی مشرقی سرحد افغانستان اور پاکستان سے ملی ہوئی ہےاور اس سرحد پر منشیات کے اسمگلر سرگرم رہتے ہیں، ان سب سے باوجود، 2001 سے افغانستان پر امریکا کے قبضے کے بعد سے طالبان دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا تھا لیکن القدس بريگیڈ کے کمانڈر نے ایران کے تمام دشمنوں میں ایسا خوف و ہراس پیدا کردیا کہ ان کو خواب میں بھی ایران کا بھوت ستاتا رہتا ہے۔
عراق پر حملے کے وقت عراقی مزاحمت نے امریکا کو جو نقصانات پہنچائے اس میں قاسم سلیمانی کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ حاجی قاسم سلیمانی وہ پہلے غیر ملکی تھے جو عراقی فوجیوں، عرب، کردی، سنی اور شیعوں کے ساتھ مل کر موصل میں ہونے والی سازشوں سے بغداد کی حفاظت کی۔ یہاں تک کہ عراقیوں نے خود کی اعتراف کیا کہ اگر ایران کی مدد نہ ہوتی اور عراق میں قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو حیدر العبادی کی حکومت عراق سے باہر ہوتی۔ انہوں نے اپنے دم پر بغداد کی حفاظت کی، شام کے معرکے میں حاضر ہوئے اور دمشق کی حفاظت کی، اس کے بعد ادلب اور حلب کے معرکوں میں فرنٹ لائن پر حاضر ہوئے اور تکفیری دہشت گردوں کو موت کا فرشتہ نظر آنے لگا۔ اس طرح سے ان کو مشرق وسطی میں سب سے سے مضبوط سیکورٹی افسر کا لقب دیا گیا۔
مثالی سلیمانی
جنرل سلیمانی سے امریکی کیوں خوفزدہ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ یہ داعش سے مقابلے کے لئے یہ سب سے مضبوط شخص شمار ہوتے ہیں جس سے مقابلے کا امریکا دعوی کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب بہت ضروری ہے۔ جس میدان جنگ میں بھی قاسم سلیمانی حاضر ہوئے، پوری طاقت کے ساتھ حاضر ہوئے۔ ان کی موجودگی ہر معرکے میں مساوی تھی امریکی کے دہرے رویے کے برخلاف۔ امریکا جہاں ایک جگہ دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے وہیں دوسری جگہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ بھی کرتا ہے۔ اس کے باوجود سلیمانی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر حاضر ہوکر یہ دکھا دیا کہ ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سچا ہے۔ داعش کے خلاف میدان جنگ میں قاسم سلیمانی کا خطاب امریکیوں کے خطاب سے مخلتف ہے جس میں وہ اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں آگے بڑھیں، ہم آپ کے آگے ہیں۔ سلیمانی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی ہیبت تو چکناچور کر دیا، امریکا کے تمام منصوبوں کو ناکام کر دیا۔ قاسم سلیمانی کی مثال عرب اور اسلامی ممالک میں ہی نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک میں بھی ان کے کارناموں کی دھوم ہے۔ اسی لئے تو کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ جہاں میں اہل ایماں مثل ماہ جیتے ہیں، یہاں ڈوبے وہاں نکلے ، وہاں ڈوبے یہاں نکلے۔