الوقت - ہر حکمراں چاہتا ہے کہ تاریخ اسے یاد رکھے۔ صدر امریکا باراک اوباما کا دور اقتدار قریب الختم ہے اس لئے یقینی طور پر ان کو بھی خواہش ہوگی کہ کوئی ایسا قدم اٹھایا جائے جو یادگار ثابت ہو اور عالمی تاریخ میں محفوظ ہوجائے۔ غالبا اسی لئے جی-7 سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے جاپان جانے والے صدر امریکا باراک اوباما یا کی کی ٹیم نے دورہ ہیروشیما کا تانا بانا بنا ہوگا کیونکہ 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکے جانے کے بعد سے کسی امریکی صدر کو جاپان کے ان دو شہروں کے دورے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔
چونکہ سات دہائیوں کے طویل عرصے میں اوباما اولین صدر ہیں جو اپنی صدارت کے آخری حصے ہی میں سہی، ہیروشیما کا دورہ کر رہے ہیں اس لئے اس دورے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ انہیں 70 سال بعد ان تباہ شدہ شہروں کا رخ کرنے والے امرکی صدر کی حیثیت سے یاد رکھے گی۔ تاہم ان کے دورے کی خبر مشتہر ہونے کے ساتھ ہی دنیا کے امن و انصاف پسند شہری یہ پوچھنا چاہتے ہیں یا پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ دورہ صرف علامتی اور نمائشی ہوگا یا اس کے ذریعے عالمی امن کے حق میں کوئی ٹھوس، مخلصانہ اور دیانتدارانہ قدم بھی اٹھایا جائے گا؟ وہائٹ ہاوس انتظامیہ نے پہلے ہی وضاحت کر دی ہے کہ اوباما ہیروشیما جائيں گے ضرور لیکن ایٹم بم گرانے کے اپنے پیش رو صدر ٹرومین کے فصیلے اور اقدام پر جاپانی عوام سے معافی نہیں مانگیں گے۔ اس سے امریکی منصوبہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دورے کا مقصد وہ نہیں ہے جو ہونا چاہئے۔ کیا اوباما اور ان کی ٹیم یہ محسوس کرتی کہ صدر امریکا کا دورہ ہیروشیما جتنا تاریخی ہے، اس سے زیادہ تاریخی ہو سکتا ہے اگر وہ معافی بھی مانگیں؟
ایسے دور میں جب بہت سی تاریخی غلطیوں کو درست کرنے اور کئی سابقہ واقعات پر دانشمندانہ اور دیانتدارانہ احتساب کے بعد یا تو اظہار معذرت کیا گیا یا مکافات عمل کی کوشش کی گئی، کیا اوباما کے لئے یہ بہت مشکل کام ہے؟ کیا انھوں نے اخبارات میں یہ خبر نہیں پڑھی کہ ابھی چند روز قبل کی کناڈا کے جواں سال وزیر اعظم جسٹس تردویو نے 1914 کے ایک واقعہ کے لئے معافی مانگی ہے جس میں کوماگانا مارونامی جہاز کو کناڈا کے ساحل پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جس کے نتیجے میں کئی مسافر فوت ہو گئے تھے ؟ جب اوباما ہیروشیما کے دورے کی فراخدلی کا مظاہرہ کر ہی رہے ہیں تو دو قدم آگے بڑھ کر حالص انسانی بنیادوں پر، معافی کیوں نہیں مانگ سکتے ؟ لیکن ہم جانتے ہيں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس سے امریکا کی ناک کٹ جائے گی اور کوئی صدر نہیں چاہئے گا کہ ناک کٹا کر متنازع ہو اور انہی حالات میں سبکدوش ہوکر گھر جائے۔
ہمیں محسوس ہے کہ اوباما انتظامیہ نے مذکورہ اعلان کے ذریعے امریکا کی ناک کٹا دی۔ کیا یہ اعلان ضروروی تھا؟ اوباما معافی مانگتے لیکن اظہار افسوس کا پروگرام توبتا ہی سکتے تھے۔ چلئے معافی پر سہی۔ کیا کم ازکم یہ ہوسکتا ہے کہ سرزمین ہیروشیما پر یہ عہد کیا جائے کہ اب دنیا کا کوئی ملک اب ہیروشیما اور ناگاساکی نہیں بنے گا؟ اس سلسلے میں ہم باراک اوباما کو ان کا خطبہ پراگ (2009) یاد دلاتے ہیں جب وہ نئے نئے صدر بنے تھے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ نیوکلیائی سلامتی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دنیا میں نیوکلیائی اسلحہ موجود ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ امریکا کا اخلاقی فرض ہے کہ دنیا کو نیوکلیائی اسلحہ سے پاک کرنے کی مہم کی سربراہی کرتا رہے۔ اگر باراک اوباما کو یہ الفاظ یاد ہوں تو انھیں عمل میں لانے کے کسی جامع منصوبے کا اعلان سرزمین ہیروشیما سے ہونا چاہئے۔