الوقت - افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی کل تہران پہنچ گئے جبکہ اتوار کو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ایران کے دورے پر آ رہے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں تہران پیر کو افغانستان کے صدر اور ہندوستان کے وزیر اعظم کا میزبان ہوگا اور تینوں ممالک کے حکام دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ اسی طرح تینوں ممالک کے رہنما اور افسر دہشت گردی سے مقابلے کے بارے میں بھی خیالات کا ادان- پیش کریں گے۔ تینوں ممالک کے حکام اسی طرح ایران کی چابہار بندرگاہ کے سلسلے میں سہ فریقی معاہدے کو بھی حتمی شکل دیں گے۔ جوہری معاہدے کے نافذ ہونے کے بعد آٹھ صدر، پانچ وزیر اعظم، تین پارلیمنٹ کے اسپیکر اور 14 وزیر خارجہ سیاسی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے مقصد سے تہران آ چکے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ ہندوستان اور افغانستان کے رہنماؤں کے ایران دورے سے تینوں ممالک کے تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہو گا۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر نے بھی تہران آنے سے پہلے کہا ہے کہ ایران اور ہندوستان کے تعلقات میں نئے باب کا آغاز ہو گا۔
ہندوستان کے وزیر اعظم کے اس دورے کی خاص اہمیت ہے کیونکہ اس سے جہاں ايران- ہندوستان اقتصادی تعاون میں توسیع کریں گے وہیں چابهار بندرگاہ کی مرکزیت میں ايران- ہندوستان- افغانستان تجارتی لین دین میں بھی اس کی خاص اہمیت ہے۔ چابهار بندرگاہ تیار ہو جاتی ہے تو افغان تاجروں کے لئے ایک نیا راستہ کھل جائے گا اور وہ پاکستان کی کراچی بندرگاہ تک محدود نہیں رہیں گے۔
ایران میں امن و سلامتی کا ماحول ہندوستان کے لئے خصوصی دلچسپی کا موضوع ہے کیونکہ یہ راستہ اس کے وسط ایشیا اور افغانستان تک محفوظ رسائی فراہم کر سکتا ہے۔ ہندوستان، چابہار بندرگاہ کے علاوہ بھی تیل، گیس، پیٹرو کیمیکل اور کیمیائی کھاد کے شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہتا ہے۔
ایران اور ہندوستان کے علاقے کے دو اہم ممالک ہیں اور مشترکہ علاقائی اور بین الاقوامی مفاد رکھتے ہیں لہذا یہ ملک باہمی تعاون میں توسیع کر کے موجودہ عالمی حالات میں بہت مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔