الوقت - گلوبل ریسرچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے امریکی اقدامات سے صرف دہشت گردانہ کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
گلوبل ریسرچ کی ویب سائٹ نے امریکی جنگی جرائم کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے امریکی اقدامات سے صرف دہشت گردانہ کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سائٹ لکھتی ہے کہ امریکا دنیا کے لئے بہت کم ہی مثبت آپشن رکھتا ہے۔ "امریکا کی ناگفتہ تاریخ: بحران جعلی" نام کتاب کے مصنف پیٹر کوزنیک نے گلوبل ریسرچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے جنگی جرائم کی تاریخ، ویتنام جنگ اور جاپانی شہروں پر ایٹمی بمباری سے بھی بہت پہلے سے متعلق ہے۔ امریکا کی مسلح فوج نے جنگ ویتنام میں بھی بہت زیادہ بموں کا استعمال کیا اور اس جنگ میں بھی بہت زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس ملک کے جنگلوں کو نابود کرنے کے لئے ایک لاکھ نوے ہزار زہریلے مواد کا گیلن اس ملک میں استعمال کیا گیا۔ امریکا کے اس اقدام سے شمالی ویتنام کے چھ صنعتی شہر تباہ و برباد ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم امریکا سے باہر کے لوگوں سے گفتگو کرتے ہیں تو ان کا یہ خیال ہے کہ جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم کی بمباری، غیر ضروری اور غیر منصفانہ قدم تھا لیکن زیادہ تر امریکیوں کا یہ خیال ہے کہ جاپان کے شہروں پر ایٹمی بمباری انسانی اقدام تھا کیونکہ اس سے نہ صرف سیکڑوں امریکیوں کو نجات ملی بلکہ لاکھوں جاپانیوں کی نجات کا بھی سبب بنی۔ یہ نظریہ امریکا میں بوڑھے لوگوں میں زیادہ پائے جاتے ہيں۔ اس نظریہ کے ہری ٹرمن اور ہنری اسٹیمسون نے زیادہ تر پھیلایا ہے۔ انھوں نے یہ نظریہ رائج کر دیا کہ ایٹم بم کے حملے کی وجہ سے ہی جاپان سر تسلیم کرنے پر مجبور ہوا۔ ٹرومن نے اپنی یادوں کی کتاب میں لکھا ہے کہ ایٹمی بمباری پانچ لاکھ امریکیوں کی نجات کا سبب بنی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی بمباری نے نہ ہی امریکیوں کی جان بچائی اور نہ جاپانیوں کے سر تسلیم خم کرنے کا سبب بنی۔ اس طرح کے اقدامات سے لاکھوں جاپانی موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے اور جو بچے ہیں وہ آج تک اس انسانی سوز جرم کا درد برداشت کر رہے ہیں۔
امریکا کی مسلح فوج نے جنگ ویتنام میں بھی بہت زیادہ بموں کا استعمال کیا اور اس جنگ میں بھی بہت زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا۔ اس ملک کے جنگلوں کو نابود کرنے کے لئے ایک لاکھ نوے ہزار زہریلے مواد کا گیلن اس ملک میں استعمال کیا گیا۔ امریکا کے اس اقدام سے شمالی ویتنام کے چھ صنعتی شہر تباہ و برباد ہوگئے۔ امریکا نے کئی بار ویتنام میں دھمکی دی تھی کہ وہ ایٹمی اسلحہ استعمال کر دے گا۔ ہنری کیسینجر ان افراد میں سے تھے جنھوں نے اس منصوبے کی حمایت کی تھی امریکا کے سابق وزیر دفاع رابرٹ مک نامارا کا کہنا ہے کہ تصور یہ کیا جاتا ہے کہ جنگ ویتنام میں 30 لاکھ 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے لیکن امریکیوں نے کبھی بھی ان جرائم کا اعتراف نہیں کیا ہے۔
کوزنیک کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ سے جسے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پندرہ سال پہلے شروع کی، صرف دہشت گردانہ اقدامات اور کاروائیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ فوجی حل نادر ہی موثر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف روشوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو جینے اور جینے دو کے فارمولے پر عمل کرنا چاہئے۔ لوگوں کو امید کی کرن کی ضرورت ہے۔ ان کو اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ ان کے اور ان کے بچوں کے لئے بہتر زندگی کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ افراد ناامیدی کا شکار ہیں، ان کو امید کا سبق پڑھائیں اور ان نا امیدی کو برطرف کریں کیوں کہ جینے اور جینے دو کا فارمولہ سب سے کے مفاد میں ہے۔