الوقت - سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبد العزیز اس وقت اس ملک کی کابینہ میں بھاری تبدیل کر رہے ہیں۔
سلمان بن عبد العزیز نے سات مئی کو اعلان کیا ہے کہ یہ تبدیل سعودی عرب کی 2030 کے عظیم اقتصادی منصوبے کے تناظر میں ہوئی ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا کے حکم کے مطابق کچھ وزارتوں کو یا تو ختم کر دیا گیا ہے ان کو دوسری وزارتوں میں ضم کر دیا گیا یا ان کی ذمہ داریوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
لیبر اور سماجی امور کی وزارتوں کو ایک میں ضم کر دیا گیا ہے جبکہ وزارت آب و بجلی کو تحلیل کر دیا گیا اور وزارت حج کا نام بدل کر حج اور عمرہ کی وزرات رکھ دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا کے دفتر کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اس ملک کی وزارت پٹرولیم کا نام بدل کر توانائی اور صنعت کی وزارت رکھ دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں سعودی عرب کے وزیر پٹرولیم علی النعيمي کو ان کے عہدے سے ہٹا کر خالد الفالح کو توانائی و صنعت کا وزیر مقرر کیا گیا ہے۔ علی النعیمی 1995 سے سعودی عرب کے وزیر پٹرولیم تھے۔
سعودی عرب میں روزانہ خاص طور پر گزشتہ مارچ کے مہینے سے ایک کروڑ بیرل سے زیادہ تیل نکالتا ہے۔ سعودی عرب کے کابینہ میں سب سے اہم تبدیلی پٹرولیم کی وزارت میں تبدیلی ہے جو سعودی عرب کے فرمانروا کے حکم سے انجام پائی ہے اور وزارت پٹرولیم کا الحاق توانائی کی وزارت میں ہو گیا اور علی النعیمی کا 21 سالہ اقتدار بھی ختم ہوگیا۔ محمد بن سلمان آج کل نہ صرف اقتصادی مسائل کی ہدایت کر رہے ہیں بلکہ وہ تیل کی اسٹراٹیجک پالیسیوں کو بھی کنٹرول کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ محمد بن سلمان وزارت دفاع کے عہدے پر رہ کر سعودی عرب کی خارجہ پالیسیوں کو بھی آگے بڑھا رہے ہیں ۔ شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے میں ناکامی اور یمن میں تھکا دینے والی جنگ میں سعودی عرب کی ناکامی ریاض کی خارجہ پالیسی میں 31 سالہ سعودی عرب کے وزیر دفاع کی ہدایات کا نتیجہ ہیں۔
سعودی فرمانرا کی جانب کابینہ میں بڑا تبدیل اور کئی وزراء کو باہر کا راستہ دکھائے جانے سے واضح ہوتا ہے کہ شاہ سلمان کے بیٹے اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے اقتدار کی بساط پر قبضہ جمانے کے لیے مہروں کو منتخب کرنا شروع کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، کابینہ میں اتنی بڑی تبدیلی شاہی فرمانروا کی جانب سے ہوئی ہے، لیکن اس کے پیچھے محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کابینہ میں حادثاتی طور پر اتنی بڑی تبدیلی آل سعود خاندان کی روایت کے برعکس ہے اور یہ اقتدار پر قبضہ جمانے کے لئے جاری داخلی خاموش جنگ کی علامت ہے۔