الوقت - چالیس سال پہلے ہم نے یورپ کا رخ کیا تھا تاکہ آزادی مل سکے، جبر سے چھٹکارا مل جائے، جمہوریت اور انصاف کے سائے میں سکون کی زندگی گزاریں لیکن اب یورپ بدل چکا ہے کڑوی بات ہے لیکن حقیقت ہے کہ ہم عرب بدل چکے ہیں بلکہ ہم ایک مذاق بن چکے ہیں اور اب ہماری وہ حالت ہے جسے زبان پر بھی نہیں لایا جا سکتا.برطانیہ میں تو آج کل فلسطین میں عربوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والوں اور صیہونی و اسرائیلی لابی کے حامیوں کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے یہ وہی لابی ہے جو آج کل صرف برطانیہ ہی نہیں امریکہ اور یوروپ کے کئی ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکی ہے.
صیہونیوں کی سیاسی دہشت گردی کی ایک تازہ مثال لیبر پارٹی کی مسلمان رہنما ناز شاہ ہیں جنہیں غزہ پر اسرائیل کے حملے کے دوران اپنے ایک دوست کو ایک پیغام کی وجہ سے پارلیمنٹ کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا. اس سے پہلے رايد صلاح ، یوسف قرضاوي اور اس طرح کے دسیوں مسلمان مذہبی رہنماؤں کو برطانیہ سے اسرائیل کے خلاف تبصرہ کرنے کی وجہ سے نکالا جا چکا ہے یا داخلے کی اجازت ہی نہيں دی گئی ہے یہ سب کچھ ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ جب ہمارے زیادہ تر عرب رہنما اسرائیل کو صرف دوست ہی نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسرائیل کو سنی مسلمانوں کا سب سے بڑا اتحادی قرار دینے میں بھی نہیں ہچکچاتے ہم اسرائیلی رہنماؤں اور حکام کے عرب ممالک کے آئے دن دوروں کے بارے میں خبروں میں اکثر خبریں پڑھتے رہتے ہیں.
ہمارے عرب رہنما، اسرائیل کے ان افسران کی ایئرپورٹ سے ہی آؤ بھگت شروع کر دیتے ہیں، انہیں سخت سیکورٹی دی جاتی ہے اور ان کے لئے ریڈ کارپیٹ بچھایا جاتا ہے اور ہمارے عرب ممالک میں ان کا اس طرح سے احترام کیا جاتا ہے کہ میں یہاں ان کا ذکر بھی نہیں کر سکتا اب تک میرے کئی پروگرام منسوخ کئے جا چکے ہیں اسی طرح فلسطینی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کے پروگرام امریکہ اور يوروپي ممالک میں منسوخ کئے جاتے رہتے ہیں جب فلسطینی سربراہ اسرائیلی فوجیوں کے مارے جانے پر روتے ہیں اور ان کے جرنیلوں کے مرنے پر سرکاری طور پر تعزیت پیش کرنے کے لئے اپنے بیٹوں، پوتوں اور دائیں ہاتھ، صائب عریقات کو اسرائیلی فوجی چھاونی میں بھیجتے ہیں تو پھر اگر پوری دنیا میں صیہونی لابی دھڑلے سے گھوم گھوم کر فلسطینی اور عرب کارکنوں اور رہنماؤں کو نشانہ بنائے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟