الوقت - ستمبر 2015 کے آخر میں جب مسلمان عید قربان کی خوشیاں منا رہے تھے اور یھودیوں کے ایسٹر کے موقع پر صیہونی حکومت کے وزیر زراعت کالونیوں کے رہنے والے کچھ صیہونیوں کے ساتھ مسجد الاقصی میں داخل ہوا لیکن انھیں اس جگہ پر موجود نمازیوں کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلمانوں نے صیہونیوں کو مسجد الاقصی کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔ صیہونی فوجیوں نے بھی مسلمان نمازیوں پر حملہ کر دیا اور ان پر آنسو گیس کے گولے اور ساونڈ بم فائر کئے۔ اس کاروائی میں متعدد نمازی زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے کچھ ہی دن بعد پہلی اکتوبر 2015 کو ایک فلسطینی طالب علم مہند حلبی نے ایک شہادت پسندانہ کاروائی کی جس میں دو صیہونی ہلاک ہوگئے۔ اس کاروائی کے بعد صیہونی فوجیوں نے انھیں فائرنگ کرکے شہید کر دیا ۔ یہیں سے تحریک قدس انتفاضہ شروع ہوئی اور سات مہینے سے زیادہ عرصے سے یہ سلسلہ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں بدستور جاری ہے لیکن انتفاضہ کے وجود میں آنے کا صرف یہی سبب نہیں ہو سکتا اور چار مہینہ گزرنے کے بعد اس نے صیہونیوں پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس مقالے میں سیکورٹی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں صیہونی حکومت پر تحریک انتفاضہ کے مرتب ہونے والے اثرات پر گفتگو کی جائے گی۔
اسرائیل پر تحریک انتفاضہ کے اثرات :
تحریک قدس انتفاضہ نے مختلف میدانوں میں صیہونی حکومت پر اثرات مرتب کئے۔ اس سے سیاسی، سیکورٹی اور اقتصادی شعبوں میں صیہونی حکومت کی تشویش میں اضافہ ہو گیا۔ مختلف شعبوں میں پڑنے والے اثرات پر ہم مختصر گفتگو کریں گے۔
سیاسی اثرات :
اسرائیل کے سیاسی حلقوں کا شروعات میں یہ خیال تھا کہ یہ تحریک انتفاضہ بہت جلد ہی ختم ہو جائے گا کیونکہ فلطسین کے داخلی اور عرب ممالک کے حالات سازگار نہیں ہیں لیکن اس انتفاضہ کے جاری رہنے سے سبھی حیرت زدہ رہ گئے اور آہستہ آہستہ اس کے شدت اختیار کرنے سے صیہونی حکام کے سیاسی رہنما پس و پیش میں مبتلا ہو گئے اور ان کے درمیان شدید اختلاف پیدا ہو گیا، اس طرح سے ان سے کچھ سازشی مذاکرات دوبارہ شروع کئے جانے کا مطالبہ کرنے لگے جبکہ ان میں سے کچھ فلسطینوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے اور ان کی ٹارگٹ کلنگ پر تاکید کرنے لگے۔ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں فلسطینوں کی تحریک انتفاضہ کے اہم اثرات مندرجہ ذیل ہے:
زمان اور مکان کے لحاظ سے مسجد الاقصی کی تقسیم بندی کا منصوبہ رک گیا اور مسجد الاقصی کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے ارکان پارلیمنٹ اور کابینہ کے اراکین کے مسجد الاقصی میں داخلے پر پابندی عائد ہوگئی۔ دائیں بازو کے ارکان کی حکمت عملی کا غلط ہونا ثابت ہو گیا کیونکہ انھوں نے فلسطینی انتظامیہ سے سازشی مذاکرات شروع کرنے کے لئے تنن یاہو حکومت پر دباؤ میں اضافہ کر دیا تھا۔ صیہونی حکومت کے سیاسی حکام آپس میں بھڑ گئے اور یہ سوال اٹھنے لگا کہ کس طرح فلسطینیون سے نمٹا جائے۔ انھوں نے ایک دوسرے پر فلسطینی فریق کے ساتھ تعاون کے الزامات بھی عائد کئے۔
اسی کے ساتھ تحریک انتفاضہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیلی حکومت کی جانب سے متعدد راہوں کا جائزہ لیا گیا جن میں فلسطینی انتظامیہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں رکے ہوئے اساسی منصوبوں دوبارہ شروع کرنا بھی شامل تھا۔
سیکورٹی اثرات :
تحریک انتفاضہ قدس کے موضوع پر گفتگو کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گرچہ پہلے دنوں کی بانسبت اس کی شدت میں کمی واقع ہو گئی ہے تاہم اب بھی یہ صیہونی سیکورٹی نظام کے لئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ نتن یاہو، موشہ یعلون اور گادی ایزنکوت جیسے اس حکومت کے حکام فلسطینیوں سے پوری شدت سے نمٹنے پر تاکید کرتے ہيں۔ دوسری جانب فلسطینی انتظامیہ اور صیہونی حکومت کے درمیان سیکورٹی کے شعبے میں زبردست تعاون جاری ہے اور اس بات کے مد نظر کے تحریک انتفاضہ، زیادہ تر مقبوضہ علاقوں کے فلسطینوں کی جانب شروع کی گئی اور فلسطینی گروہوں کا اس میں کوئي کردار نہیں ہے، اسی لئے اس کو کنٹرول کرنے کا امکان بہت کم ہے۔ صیہونی فوج کے سربراہ انتفاضہ کو روکنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ صیہونی حکومت کے 77 فیصد شہری سیکورٹی سے محروم ہوگئے یعنی اسرائیل میں سیکورٹی سطح کمترین سطح پر پہنچ گئ۔ صیہونی حکومت کے سیاسی رہنما فلسطینی انتظامیہ کی سرنگونی اور اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کے درمیان سیکورٹی تعاون کے ختم ہونے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔
اقتصادی اثرات :
تحریک انتفاضہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ سیاحت، سرمایہ کاری اور شیئر کا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تحریک انتفاضہ کے شروعاتی مہینے میں 3.1 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا جس میں سب سے زیادہ سیاحت کا شعبہ متاثر ہوا۔ تحریک انتفاضہ کی وجہ سے صیہونی اپنے گھروں میں بند ہوگئے جس سے اسرائیل کا اقتصاد بری طرح متاثر ہوا ہے۔