الوقت - امریکا کے ایک سینئر صحافی نے نئے ثبوتوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا کہ اسامہ بن لادن برسوں پاکستان کی حراست میں تھا اور وہ اسلام آباد کی جانب سے واشنگٹن کے ساتھ کئے گئے ایک معاہدے کے بعد مارا گیا۔ صحافی نے پاکستان کی اس بات کی تردید کی کہ وہ القاعدہ لیڈر کی ہلاکت کی مہم سے بے خبر تھا۔
امریکی صحافی سيمور ہرش نے اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ پاکستان امریکی بحریہ کے سیل کمانڈو کی 2011 کی مہم سے باخبر تھا، جس میں اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں پاکستان کے فوجی ٹریننگ اسکول کے نزدیک واقع اپنے احاطے میں مارا گیا تھا۔ اسامہ بن لادن دہشت گرد گروہ القاعدہ کا بانی تھا۔ اسی دہشت گرد گروہ نے امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
امریکہ کا بیان دھوکے میں ڈالنے والا
ڈان کو دیئے انٹرویو میں ہرش نے کہا کہ گزشتہ سال سے انہوں نے نیا ثبوت دیکھا، جس نے ان کے اس دعوے کو مزید مضبوط کر دیا کہ اسامہ کی ہلاکت پر امریکہ کا سرکاری بیان دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ پاکستان نے 2006 میں ہی لادن کو حراست میں لے لیا تھا اور اسے سعودی عرب کے تعاون سے قیدی بنا کر رکھا۔
جان بوجھ کر لاعلمی کا بہانہ
امریکا اور پاکستان نے اس وقت ایک معاہدہ کیا کہ امریکا اس احاطے پر حملہ کرے گا لیکن ظاہر یہ کیا جائے گا کہ پاکستان اس سے آگاہ نہیں تھا۔ ہرش نے کہا کہ پاکستان، ہندوستان کے حوالے سے ہمیشہ چوکس اور محتاط رہتا ہے۔ ان کے ریڈار سرگرم رہتے ہیں، ان کے ایف -16 لڑاکا طیارے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں، اسی لئے پاکستانیوں کو خبر دئیے بغیر امریکی ہیلی کاپٹروں کے لئے ایبٹ آباد میں داخل ہونا آسان نہیں تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اب بھی ان کا خیال ہے کہ پاکستان نے اسامہ کی ہلاکت میں امریکا کی مدد کی، انہوں نے کہا، 'پہلے سے زیادہ۔'
گزشتہ سال بھی کیا تھا ایسا ہی دعوی
ہرش نے جب گزشتہ سال شائع ایک مضمون میں پہلی بار یہ دعوی کیا تھا تو اس سے واشنگٹن پر لرزہ طاری ہو گیا اور وائٹ ہاؤس کو اس خبر کو جھوٹ قرار دے کر مسترد کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ امریکا کے بڑے میڈیا اداروں نے بھی ان کے دعوے کو غلط کہہ کر مسترد کیا تھا لیکن ہرش نے اپنے دعوے کو اس ہفتے شائع اپنی نئی کتاب 'دی کلنگ آف اسامہ بن لادن' میں پھر دہرایا اور کہا کہ وہ صحیح تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی سربراہان نے امریکیوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، جس سے دیگر پاکستانی جنرل ناراض ہو گئے۔
ہرش نے کہا کہ پاکستان کی فضائی دفاعی کمان کے موجودہ سربراہ بہت زیادہ ناراض تھے۔'انہوں نے دعوی کیا کہ ناراض جنرل کو ریٹائرمنٹ کے بعد پی آئی اے کا سربراہ بنا دیا گیا تاکہ انہیں چپ رکھا جا سکے۔ 1400 سے زائد ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک، ڈیموکریسی ناؤ کو دیئے انٹرویو میں ہرش نے یہ بات کہی۔
ہندو کش سے گرفتار ہوا تھا لادن
انہوں نے کہا کہ میں جو جانتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگست 2010 میں ایک پاکستانی کرنل ہمارے سفارت خانے میں آیا، وہ اس وقت سی آئی اے اسٹیشن سربراہ جوناتھن بینک سے ملا، اور اس نے کہا کہ لادن ہمارے قبضے میں چار سال سے تھا ۔ ہرش نے ڈان کو بتایا کہ کرنل بعد میں امریکا گیا اور اب وہ واشنگٹن کے قریب کہیں رہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی نے اسامہ بن لادن کو ہندو کش علاقے میں گرفتار کیا تھا ، ایبٹ آباد میں احاطے بنایا اور اسے وہاں رکھا۔
سعودی عرب کے اشارے پر پاکستان نے ایسا کیا
ہرش نے کہا کہ پاکستانی حکام نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ سعودی حکام نے ان سے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ سعودی حکام نہیں چاہتے تھے کہ امریکی اس سے پوچھ تاچھ کریں۔ نامور صحافی کے مطابق جب سی آئی اے نے ایبٹ آباد میں دو مئی 2011 کو مہم کے بارے میں پاکستانی حکام سے بات کی تو وہ تیار ہو گئے کیونکہ انہوں نے اسامہ بن لادن کو ہمیں بتائے بغیر حراست میں رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی پہلے ہی ناراض تھے اور پاکستانی حکام امریکا کی ناراضگی میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔