الوقت - حال ہی میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کی سربراہی میں افغانستان کی قومی سیکورٹی کونسل کی نشست ہوئی جس میں حکومت مخالف مسلح گروہوں کے خلاف کاروائی کے لئے پانچ سالہ اسٹراٹیجک کو منظوری دی گئی۔
انھوں نے 25اپریل 2015 کو قومی سلامتی کونسل کی نشست میں حکومت کی نئی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے قومی آشتی، سیکورٹی کی ضمانت اور طالبان سے مقابلے کے بارے میں اپنے موقف کا اعلان کیا۔ مسلح گروہوں کے خلاف افغان حکومت کی حکمت عملی کی منظوری، حکومتی موقف میں اصل تبدیلی شمار ہوتی ہے۔ قومی پارلیمنٹ کے ارکان کے ساتھ اجلاس میں اشرف غنی کے بیان میں متعدد نکات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے :
1 - اشرف غنی نے حکومت مخالفین اور طالبان سے جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ موقف ایسی حالت میں لیا گیا ہے کہ ابھی حال ہی میں چار فریقی مذاکرات ناکام ہوئے تھے اور یہ امن مذاکرات طالبان کے لئے اپنی طاقت کو جمع کرنے اور بکھرے ہوئے جنگجوؤں کو منظم کرنے کا موقع تھا ۔ اس بات کے مد نظر کے حالیہ سیاسی اور فوجی اقدامات کی وجہ سے ہی صدر اشرف غنی نے اتنا اہم فیصلہ کر دیا۔ اشرف غنی کے بقول پارلیمنٹ کے ارکان نے حکومت کے موقف کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور موجود وقت میں ہماری آواز ایک ہے اور ہمارا مقصد بھی ایک ہی ہے اور وہ مخالفین کی سرکوبی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی لئے سیکورٹی فورس مخالفین کی سرکوبی کے لئے آمادہ ہے۔ البتہ افغان پارلیمنٹ کے اسپیکر عبد الروؤف ابراہیمی نے کہا کہ ایسی حالت میں طالبان کے خلاف جنگ میں صد مملکت کی حمایت ہو رہی ہے کہ حکومت کو چاہے کہ وہ وزیر دفاع اور قومی سلامتی کے سربراہ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی وزارت دفاع اور قومی سلامتی کے ادارے کا انتظام سرپرستوں کے پاس ہے اور قوانین کی خلاف ورزی پر حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اشرف غنی نے گزشتہ روز یہ کہا تھا کہ وہ جلد ہی ملک کے وزیر فادع اور قومی سیکورٹی کے سربراہ کے نام پیش کریں گے۔
2- اشرف غنی نے اپنے بیان میں افغان امن مذاکرات کی جانب اشارہ کیا۔ طالبان کی سرکوبی کے بارے میں حکومت کی نئی حکمت عملی کے اعلان ہونے کے باوجود اشرف غنی نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں جو جنگ میں شرکت نہیں کرتے اور ملک کے آئین کو قبول کرتے ہیں لیکن یہ موقع ہمشہ رہنے والا نہیں ہے۔ اشرف غنی کا خیال ہے کہ طالبان در حقیقت مدرسوں میں پڑھتے ہیں اور جو افراد عوام کا قتل عام کرتے ہیں انھیں خود کو طالبان نہیں کہنا چاہئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کے خلاف حکومت کے اعلان جنگ، پارلیمنٹ کے تمام ارکان کی ہماہنگی سے ہوا ہے تاکہ طالبان پر امن کے تمام راستے بند کر دیئے جائیں لیکن افغانستان کی پیچیدہ صورتحال اور طالبان سے مقابلے کے لئے حکومت اور قومی اتحاد میں پائے جانے والے اختلافات کے مد نظر مستقبل قریب میں یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ یہ ہماہنگی بدستور جاری رہے گی۔
3 - افغان صدر کے خلاف کا تیسرا نکتہ پاکستان کی سیاست کی جانب لوٹتا ہے۔ اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم پاکستان سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں مدد کی درخواست نہیں کریں گے اور جو افراد امن مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے ان کا حشر جلد ہی سامنے آ جائے گا۔ پاکستان نے ان مذاکرات کا وعدہ کیا تھا کہ جو امن عمل میں شامل نہیں ہوں گے ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور وہ منطقی لحاظ سے اچھے اور برے دہشت گرد سے گزر جائیں گے، پاکستان کو ایک ذمہ دار حکومت کی طرح ذمہ داری قبول کرنا چاہئے۔ اشرف غنی اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان، طالبان کو امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لئے ترغیب دلانے میں صادق اور سنجیدہ نہیں ہے بلکہ مسلح عسکریت پسندوں کی حمایت کرکے کابل سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں بد امنی میں براہ راست ملوث رہا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغان حکومت نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور ان کو ملک کے سیاسی عمل میں شامل کرنے کے لئے بہت کوشش کی اور کافی انتظار کیا لیکن جب طالبان کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے تو انہوں نے طالبان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ بہرحال افغان صدر نے اپنے چہرے کو درست کرنے اور عوام اور سیاسی افراد کے درمیان اپنے کو بہتر دکھانے کے لئے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا تو وہ اس کی شکایت بین الاقوامی اداروں میں کریں گے جبکہ یہ موقف کوئی پہلی بار نہیں اختیار کیا گیا ہے لیکن ابھی تک افغانستان کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔