الوقت - اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے رکن ملکوں کا سربراہی اجلاس جمعے کے روز ترکی کے شہر استنبول میں ایک بڑی اور تاریخی فضیحت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
اس اجلاس میں کوشش کی گئي کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے استقامتی گروہ یعنی حزب اللہ لبنان پر، جس نے غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں اکیلے ہی ڈٹ کر اسے شکست کا مزہ چکھایا ہے، دہشت گردی کا لیبل لگا کر، اس کی مذمت کی جائے۔
اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ ایران کو، جس نے خطے میں بے لگام دہشت گردی کے خلاف سب سے سنجیدہ اور اہم کردار ادا کیا ہے، سراہنے اور اس کی خدمات کی قدر کرنے کے بجائے، خطے کے دیگر ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کا بے بنیاد الزام لگا کر اس پر تنقید کی گئي ہے۔
اس شرمناک موقف نے او آئی سی کے سربراہی اجلاس کے دوسرے تمام فیصلوں کو غیر اہم بنا دیا ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس اجلاس کے فیصلوں کی بنیاد ہی تفرقہ انگیزی، تضاد اور عالم اسلام میں مقابلہ آرائي شروع کرانے پر رکھی گئي ہے۔ اگرچہ ترک صدر اردوغان اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان، صیہونیوں کی خدمت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ شام، عراق اور یمن میں دہشت گردوں کی شکست اور ناکامی پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے۔
جو کچھ استنبول میں ہوا وہ دہشت گردوں کے حامیوں کے اقدامات کو صحیح ٹھہرانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ اس سے صرف اور صرف غاصب صیہونی خوش ہوں گے اور صیہونیوں اور قدامت پسند عرب حکام کی قربت کی راہ ہموار ہوگي۔
اسلامی تعاون تنظیم او آئي سی اپنے نام کے برخلاف اب تک اسلامی حکومتوں اور مسلمان اقوام کے درمیان اخوت قائم کرنے اور تعاون میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ کچھ ممالک اس تنظیم کو حربے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے مسلمانوں کی اس سب سے بڑی تنظیم میں واضح طور پر کشیدگي نظر آتی ہے۔
گزشتہ دو دنوں میں استنبول میں منعقد ہونے والے او آئی سی کے سربراہی اجلاس کو بھی اس سے مستثنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ او آئی سی پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ اور ایران کی غیر موجودگي میں جدہ میں ہونے والی اس کی تمہیدی نشست میں منظور ہونے والے مسودے کے سبب، سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں ایران اور حزب اللہ کے خلاف کچھ شقیں شامل کر دی گئيں۔ البتہ یہ اختتامی بیان بعض رکن ملکوں کی مخالفت اور ایران کے دباؤ کے سبب آخری سیشن میں پڑھا نہیں جا سکا لیکن بیان میں مذکورہ شقوں کی شمولیت کے سبب، ایران کے صدر اور وزیر خارجہ نے آخری سیشن کا بائيکاٹ کیا۔
سعودی حکام اور بحرین جیسے کچھ عرب ممالک کافی پہلے سے ایرانوفوبیا کے تناظر میں استنبول اجلاس کے ذریعے ایران کو الگ تھلگ کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے تھے جن کا مقصد ایٹمی سمجھوتے کے بعد خطے میں ایران کی مزید مستحکم ہو چکی پوزیشن کو کمزور کرنا ہے۔ بہرحال وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور او آئي سی کے استنبول سربراہی اجلاس کا اختتامی بیان پڑھا ہی نہیں گيا۔ اس صورتحال میں اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ضروری ہو گيا ہے کہ وہ عالمی قوانین کے تحت اپنی اصولی پالیسیوں پر پہلے سے زیادہ سنجیدگي سے عمل کرے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یوں ہی اپنی کوششیں جاری رکھے۔
یقینا اس کے لیے ملک کے تمام طبقوں، دانشوروں، سیاستدانوں اور جماعتوں کے درمیان مزید اتحاد و یکجہتی ضروری ہے۔