سوال: صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کا پاکستان دورہ تو بہت کامیاب رہا، اس کے ثمرات آپ کس شکل میں دیکھ رہے ہیں؟
جواب : یہ جو دورہ ہوا ہے اور اس میں جس طرح سے پاکستان کی حکومت نے، پاکستان کے وزیر اعظم اور دیگر افراد نے ان کا خیر مقدم کیا ہے اور جس طرح سے ڈاکٹر حسن روحانی کا احترام کیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی جو سیاسی قیادت ہے اور پاکستان کے جو عوام ہیں وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات باہمی کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ پاکستان اور ایران اتنے قریبی ملک ہیں، ان کے درمیان جو تجارت نہیں ہوئی تھی، ایران پر سامراج نے جو اقتصادی پابندیاں لگائی تھیں وہ پابندیاں جب اٹھ گئی ہیں تو پاکستان اور ایران کو اس طریقے سے کام کرنا چاہئے کہ نہ صرف معاشی تعلقات بلکہ ثقافتی تعلقات بھی مضبوط ہونے چاہئے کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ بر صغیر میں چھ سو سال تک فارسی زبان بولی گئی ، اس ناطے سے پاکستان کا جو تشخص ہے ایران سے وہ بہت قریب بنتا ہے۔ اس دورے سے جو سب سے اہم پیشرفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف نے کہا ہے کہ مزید دو کراسنگ کھولے جائیں گے تافتان کے علاوہ ایران اور پاکستان کے درمیاں، تو میرے خیال میں بہت بڑی پیشرفت ہے، دونوں ملک خطے میں دہشت گردی کی وجہ سے بھی بہت پریشان ہیں، اور یہی بات راحیل شریف اور سرتاج عزیز صاحب سے بھی ہوئی، ظاہر ہے کہ دہشت گردی ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور ایک سنگین مسئلہ ہے ، اس سے پورا عالمی امن متاثر ہو رہا ہے، تو دونوں ملکوں نے اس حوالےسے بھی باہمی تعاون کا فیصلہ کیا ہے اور باہمی تعاون سے دہشت گردی کے عفریت کو ختم کیا جائے گا۔ ایک اہم پیشرفت یہ ہے کہ چھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں اور جن میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انرجي، ٹکنالوجی، تعلیمی اور ثقافتی وغیرہ شعبوں میں تعاون کیا جائے گا، کیونکہ لوگوں کے درمیان رابطے سے جو دوری ہے اسے دور کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بعض ایسی قوتیں موجود ہیں عالمی سطح پر جو ایران اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ یہ حقیقیت ہے اور میں اس حقیقت سے آپ کو آگاہ بھی کرنا چاہتا ہوں، لیکن اگر پاکستان کی سیاسی قیادت یہ فیصلہ کر لے کہ جتنی بھی رکاوٹیں آئیں، پاکستان اور ایران کے تعلقات کو مستحکم ہونا چاہئے اورتعلقات آگے بڑھنا چاہئے، اسی میں دونوں ملکوں کی بھلائی بھی ہے۔ جب یہ دونوں کراسنگ کھل جائیں گی تو آپ دیکھئے گا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید اچھے ہوں گے تجارت کے بھی اور معیشت کے بھی، اور ایک اہم پیشرفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ بورڈ آف انویسٹمینٹ کے جو چیئرمین ہیں، جناب اسماعیل مفتا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ چین کی مدد س دو سو کلومیٹر پائپ لائن بنانا چاہتے ہیں جو نواب شاہ کو گوادر سے جوڑے گی، اس کے بعد وہاں سے 75 کلومیٹر دور چابہار سے اس کو جوڑ دیا جائے گا۔ اس طرح سے گیس پائپ لائن کا جو منصوبہ ہے اس سے بھی دونوں ملک بہت زیادہ مستفید ہوں گے۔ وہ بھی بہت تیزی سے آگے کی جانب جائے گا، یہ پریس کانفرنس ہوئی جو مفتا صاحب کی جانب سے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو انرجی کے شعبے میں جو مسائل درپیش ہيں اور انرجی کے شعبے میں ہونے والی پریشانیوں سے پاکستان کے اقتصاد کو جو نقصان ہو رہا ہے، اس کی شرح نمو تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے، لیکن اگر ایران کے تعاون سے گیس پائپ لائن اور دیگر شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر جو دستخط ہوئے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ایران اور پاکستان دونوں کو بہت کچھ ملے گا۔ دونوں ملک امن کے لئے اور تجارتی تعلقات کی توسیع کے لئے ایک دوسرے سے مزید قریب ہوں گے۔ ایران پر عائد پابندیاں ہٹ گئی ہیں اور صدر ایران نے صحیح فرمایا ہے کہ ایران پر جو مغربی ممالک، امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کی گئیں تھیں، اس کی وجہ سے ایران کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا تھا اور اس کی کرنسی نیچے چلی گئی تھی، لیکن اب یہ سب مسائل ختم ہو گئے ہیں اور ایران کی مارکٹ کھل گئی ہے، دنیا بھر کے لوگ ایران آ رہے ہیں، وہ ایران کے ساتھ تعلقات صحیح کرنا چاہتے ہیں، تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں، اس میں سب سے زیادہ حق پاکستان کا بنتا ہے کیونکہ پاکستان ہی ایران کا سب سے قریبی پڑوسی ہے اور ان کے درمیان بہت گہرے تعلقات بھی ہیں۔ اس طرح سے پاکستان، اقتصادی پابندیاں ہٹنے کے بعد ایران سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان کے تاجروں کو چاہئے کہ جس طرح سے عالمی سطح پر بہت زیادہ تاجر ایران آ رہے ہیں وہ بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کرایران جائیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت، صنعت اور حرفت کو زیادہ آگے بڑھائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دورہ بہت زیادہ ہی کامیاب رہا ہے اور ڈاکٹر حسن روحانی کا جس طرح سے چکلالہ ائیر پورٹ پر ان کا خیر مقدم کیا اور ان کو 21 توپوں کی سلامی دی گئ اور اس کے بعد وزیر اعظم ہاوس کے وسیع و عریض حاطے میں ان کے گارڈ آف آنر دیا گیا، دونوں ملکوں کے قومی ترانے بجائے گئے۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے سے قریب آنا چاہتے ہیں اور بہت سے ایسے مواقع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایران اور پاکستان کا موقف مختلف ہوتا ہے، موقف میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باہمی تعلقات خراب ہو جائیں ، اور دو اہم پڑوسی ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں، غلط فہمیاں بھی وہ ممالک پھیلاتے ہیں جو دنیا میں امن کے خواہشمند نہیں ہیں، جو یہ نہیں چاہتے کہ دو پڑوسی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات رہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی نے انتخابات جیتنے کے بعد جو پاکستان کا پہلا دورہ کیا تھا، اس کا بڑا خیر مقدم کیا گیا، آپ کو یہ بھی پتا ہونا چاہئے کہ ڈاکٹر حسن روحانی اور نواز شریف کے درمیان یہ تیسری ملاقات ہے، انٹرنیشنل فورم پر نواز شریف ڈاکٹر حسن روحانی سے پہلے بھی مل چکے ہیں، اب ان کی یہ پاکستان میں ملاقات ہوئی ہے جس کا پاکستان کے عوام نے بڑا خیر مقدم کیا ہے، پاکستان کے تجزیہ نگاروں نے بڑا خیر مقدم کیا ہے، اور پاکستان کا جو بنیادی مسئلہ ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سیاسی لحاظ سے جو تھوڑی بہت غلط فہمی تھی وہ اس دورے سے دور ہو گئی ہے۔
سوال : سرحدوں پر مشترکہ تجارتی زون قائم کرنے کی بات کہی ہے ڈاکٹر حسن روحانی نے تجارتی زون تبھی قائم ہو سکتا ہے جب سرحد پر امن ہو، اس حوالے سے دونوں ملک کے حکام نے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا ہے؟
جواب : یقینا یہ جو بات آپ نے کہی ہے اس میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ جب انھوں نے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ کسی طرح سے سرحدوں کو محفوظ کیا جائے، میں عرض کر چکا ہوں کہ دہشت گردی نہ صرف ایران پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے اور یہ ایک عالمی مسئلے میں تبدیل ہو چکی ہے، اور جس طرح دہشت گرد عالم امن و سکون کو تباہ کر رہے ہیں، ان کی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں، عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے ایک دوسرے کو دور کر رہے ہیں، اس پر بڑی تفصیلی بات ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر حسن روحانی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ واقعی پاکستان دہشت گردی سے بہت بری طرح متاثر ہوا ہے، پاکستان کا اقتصاد متاثر ہوا اور یہی دہشت گردی ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے، پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 4 فیصد سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے، جب اس مسئلے پر ڈاکٹر حسن روحانی اور پاکسان کے اعلی حکام کے درمیان جو گفتگو ہوئی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سرحدیں خوشحالی کی سرحدیں یقینی طور پر بن سکتی ہیں، دونوں جانب سے اس طرح کی سوچ ظاہربھی ہوئی ہے اور اس کا ثمرہ بھی نظر آ رہا ہے۔ اس طرح کی سوچ سے ظاہر ہے ایران کے عوام کو فائدہ ہوگا، پاکستان کے عوام کو فائدہ ہوگا، اور ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جو ایران اور پاکستان کے درمیان دوری پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور دہشت گردی کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ چابہار پورٹ کے بارے میں بڑی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی تھیں اور کہا جا رہا تھا کہ اس میں ایک پڑوسی ملک سرمایہ کاری کرکے پاکستان کے گوادر پورٹ کو غیر متاثر کرنا چاہتا ہے لیکن اس دورے میں ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ چابہار اور گوادر پورٹ کمپلیمینٹری پورٹ ہوں گے اور اس طرح سے ہم سینٹرل ایشیا کی طرف جو تجارت کریں گے اس سے ہم دونوں پورٹ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے ایران سے گزشتہ سال یہ اعلان کیا تھا کہ گوادر کے پاس جو سی پیک بن رہا ہے وہاں پر ایک آئل ریفائنری ایران لگائے گا اور اس کے سارے اخراجات ایران برداشت کرے گا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیا کل تجارت 275 ملین کی، یہ کچھ بھی نہیں ہے اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ ایران پر پابندیاں عائد تھی اور اب پابندیاں ہٹنے کے بعد دونوں ممالک نے پانچ ارب ڈالر تک تجارت کی سطح کو پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ جب یہ بات کہی گئی تو ہم بہت خوش ہو جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان علاقوں کو پیشرفتہ بنانے کی ضرورت ہے، ہم کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ایران کو کس چیز کی ضرورت ہے اور ایران کو تو بہت ہی چیزوں کی ضرورت ہے،کیونکہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اس کی بھی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اور سی طرح پاکستان کو بھی کرنا چاہئے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر سنجیدگی سے ڈاکٹر حسن روحانی کے دورے میں جن مسائل پر گفتکو ہوئی ہے، پاکستان کی قیادت نے اس پر سنجیدگی سے عمل کیا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جہاں ایک طرف یہ غلط فہمیاں ختم ہو رہی ہیں وہیں دوسری طرف دونوں ملک ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب آگر اقتصادی لحاظ سے ایک دوسرے سے منسلک ہو جائیں گے۔ ایک بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب نے بہت ہی خوبصورت جملہ کہا کہ جشن نوروز کی ہم مبارک باد پیش کرتے ہیں، اس سے جملے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی ثقافت کو قبول کرتے ہیں، اس کو سمجھتے ہیں اور اس کا ادراک رکھتے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے سیاسی افق پر یہ نئی سوچ نمودار ہو رہی ہے کہ دونوں ملک کس طرح مل کر اپنے مملک کو اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
سوال : ڈاکٹر حسن روحانی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عالم اسلام کو اختلافات کا سامنا ہے جبکہ مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن صیہونی حکومت چین سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ او آئی سی کو امت اسلامیہ میں اتحاد کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ صدر روحانی پاکستان میں او آئی سی کا نام لے کر کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟
جواب : جی ایران کا شروع سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں، ان کے وسائل ہیں، ان کے پاس طاقت ہے، ظاہر ہے ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی وجہ سے وہ قوت و طاقت برباد ہو رہی ہے، اسی سوچ کا اظہار ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا کہ کس طریقے سے مسلمان ایک دوسرے کے قریب آ جائیں اور باہمی تعلقات صحیح رہے اور برادرانہ اور اخوت کے جذبے سے کام کریں تو یقینی طور پر عالمی سامراج بھی ان سے گھبرائے گا بلکہ اسلامی ممالک کی معیشت بھی بہت ترقی کرے گی۔ لیکن یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے، او آئی سی کی قیادت اس وقت مصر کے پاس ہے اور عرب ليگ کی قیادت بھی مصر کے پاس جا رہی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اتنی جلدی کوئی خاص تبدیلی آئے گی، کیونکہ مسلمان ممالک کا سب سے اہم مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ بہت جلد مغربی ممالک کے پرپیگینڈے سے متاثر ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ سے ان ممالک میں بہت زیادہ بے چینی اور اضطراب پیدا ہوتا ہے، میں یہاں پر ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایران کی ڈپلومیسی ہے وہ بہت ہی شفاف ڈپلومیسی ہے، جس کے تحت وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی ممالک قریب آجائیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر حسن روحانی نے پریس کانفرنس میں او ائی سی کا جو نام لیا وہ اسی لئے ہو سکتا ہے۔