سوال : شام یا عراق میں سرگرم دہشت گرودوں میں ایک بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہے اور ان میں سب سے زیادہ بیلجیئم کے شہری ہیں، بیلجیئم کے حکام نے اس چیز کو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں کئے۔ جب داعش میں بیلجیئم کے شہریوں کی تعداد اچھی خاصی ہے تو کیوں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے؟
جواب : سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب سے یورپی یونین کا بارڈر آزاد ہوا ہے اس وقت سے فرانس کے رہنے والے یا جو فرانس کے باشندے ہیں یعنی جو الجزائر اور مراکش نژاد شہری ہیں وہ بیلجیئم میں رہنے لگے ہيں، کیونکہ یورپی یونین کی وجہ سے کوئی پابندی تو ہے نہیں۔ اسی طرح بہت سے بیلجیئم کے شہری فرانس میں رہنے لگے ہیں، اور جیسا کے ہم سب کو پتا ہے کہ بہت سے افراد فرانس سے جاکر شام اور عراق میں دہشت گروں کی صفوں میں شامل ہوگئے، انہوں نے لڑائیاں بھی لڑی ہیں، بلاشبہ یہ سب مغربی حکام کو پتا تھا اور یہ سب ان کے آشرواد سے ہی ہو رہا تھا۔ اگر مغرب دو رخہ رویہ اختیار نہ کرتا تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مسئلہ ہی پیش نہ آتا۔ مغربی حکام سمجھ رہے تھے کہ یہ افراد وہاں جاکر کاروائیاں کریں جب یہ افراد واپس ہونے لگیں گے تو ہم ان کو کنٹرول کر لیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ جو دس افراد یہاں سے گئے تھے، کاروائی کے لئے وہ اپنے ساتھ مزید بیس افراد کو لے کر آئے۔ یہ معلومات سفارتی ذرائع سے مجھے موصول ہوئی ہیں اور حکام نے اس کی تصدیق بھی کی ہے کہ بہت سارے لوگ جو شام سے پناہ گزینوں کی شکل میں آئیں ہیں، ان میں بہت سے افراد ایسے بھی آگئے ہیں جو داعش کےساتھ ہیں اور داعش کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ حکام کے پاس کوئی ایسی چيز نہیں ہے جس سے وہ یہ دیکھ سکیں کہ کون صحیح پناہ گزین ہے اور کون داعش کا آدمی ہے، کیونکہ جب وہ سیاسی پناہ کے لئے آتے ہیں تو وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں پر ہمیں جان کا خطرہ تھا۔ حکام کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے دہرا معیار رکھا ، دیکھئے اگر آپ دہشت گرد کو دہشت گرد کہیں گے تو آپ اس کی شناخت کریں گے، دیکھئے جب آپ نے دہشت گردوں کو اچھے اور برے دہشت گردوں میں تقسیم کر دیا، یہ ہمارا تھا اور ہمارے لئے لڑے گا، جب یہ بات آ جائے گی، تو معاملہ خراب ہوگا، اور یہ وہی بات ہے جس کے بارے میں شام کے صدر بشار اسد نے کہا تھا کہ یورپ کے ممالک جو کچھ یہاں پر کر رہے ہیں اور جو فصل یہاں بو رہے ہیں، ان کو یہ فصل اپنے گھروں میں کاٹنی پڑے گی۔ یہ سب جو رد عمل ہے وہی چيز ہے۔
سوال : برسلز دھماکوں کے بعد یورپی حکام کہہ رہے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حالت میں ہیں ، سوال یہ ہے کہ جب جنگ کی جاتی ہے تو ہر طرح سے جنگ کی جاتی ہے، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے حامی ممالک کے رہنما جب فرانس جاتے ہیں تو ان کو فرانس کے سبب سے اعلی اعزاز سے نواز جاتا ہے، اس طرح سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یورپ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
جواب : جی ہاں آپ صحیح فرما رہیں ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ دہرا رویہ، یہ بہت ہی خطرناک ہے اور بحیثیت ایک عالمی مذاکرات کار میں یورپی ممالک کے حکام سے جب ہمارے مذاکرات ہوتے ہیں تو میں ان سے یہ بات کہتا رہا ہوں کہ آپ کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی، اور اگر آپ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کریں گے تو یہ آپ کے لئے بہت زیادہ ہی خطرناک ثابت ہوتا جائے گا۔ جیسا آپ نے کہا کہ یہ جنگ، وہ کیسے کریں گے، کیونکہ ایک طرف تو آپ خود ہی ان لوگوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، جس طرح سے انہوں نے عراق اور دیگر ممالک میں کیا، شام میں تو بات کھل کر سامنے آگئی تھی۔ انھوں نے شام میں داعش کو خود بھیجا، ان کو ٹریننگ دی، آج تو داعش اور ديگر دہشت گرد تنظمیں ہیں، کس نےبنائی ہیں، یہ سب انھوں نے ہی بنائی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب یہ طے کر لیں گے کہ دہشت گرد صرف اور صرف دہشت گرد ہے، جیسا کہ انہوں نے دہشت گردوں کے حوالے سے کیا ، اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد، پاکستان میں بھی انھوں نے یہی کچھ کیا اچھا طالبان اور برا طالبان، یہی معیار انھوں نے یہاں بھی اختیار کر رکھا ہے کہ یہ اچھے داعش ہیں اور یہ برے داعش ہیں۔ سب سے پہلے ان کو یہ معین کرنا ہوگا کہ داعش دہشت گرد گروہ ہے اس کے بعد ہی ان کو جنگ کرنی ہوگی اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ آگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
سوال : جیسا کہ دیکھا گیا اس طرح کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد مغرب میں آباد مسلمانوں اور ان کے مذہبی مقامات پر حملے تیز ہو جاتے ہیں اور باپردہ خواتین پر نسل پرستانہ حملوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے، کیا اس سے دہشت گرد عناصر فائدہ نہیں اٹھاتے؟
جواب : جی ہاں ، آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے، داعش کے دہشت گردوں کا مقصد بھی یہی ہے کہ یورپ میں جو انتہا پسند افراد رہ رہے ہیں ان سے مسلمانوں کا ٹکراو ہو اور جب ٹکراو ہوگا تو خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوگی اور یہ بات کہ مسلمان ان ممالک میں اقلیت میں ہیں اور جب ان پر مظالم ہوں گے اور ان کا قتل عام ہو گا تو وہ لا محالہ داعش کی پناہ میں جائیں گے، جی ہاں آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اس سے دہشت گردی اور بھی بڑھے گی، لیکن بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ یہ ساری چيزیں یہ خود ہی کر رہے ہیں، جی جناب کچھ عرصہ پہلے تک مشرق وسطی میں ہمارے پاس ایک ہی ایشو ہوتا تھا اور وہ فلسطین کی آزادی، ایشیا میں آپ چلے جائیں تو ہمارے پاس ایک ہی ایشو ہوتا تھا وہ کشمیر کی آزادی۔ آخر یہ کون سے لوگ تھے جنہوں نے صیہونیوں کے ساتھ مل کر اور مغربی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر ایسی پالیسی بنائی، داعش بنایا کہ آج ہم فلسطین کی آزادی کو بھول چکے ہیں، ہم کشمیر کی آزادی کو بھول چکے ہیں، ہم بات کر رہے ہیں داعش سے لڑنے کی۔ بنیادی طور پر اس سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، اگر انہوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی تو، ان کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا، جیسا کے سننے میں آیا ہے کہ سویڈن اور ناروے نے کہا کہ ہم اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے۔
سوال : خارجہ معاملہ میں نظر ثانی سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب : اس سے مراد یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں جاکر وہاں کے گروپوں کی حمایت کرنا، ان گروپوں کو اسلحہ دینا، دہشت گردوں کی مدد کرنا اور جب جنگ بندی کا اعلان ہوتا ہے تو یہ دہشت گرد اپنے ملک واپس ہوتے ہیں، یہ سب بہت ہی خطرناک ہے۔
سوال : امریکی صدر باراک اوباما کا وہ بیان تو آپ نے سنا ہی ہوگا جس میں انہوں نے مغربی ممالک کی تنقید کرتے ہوئے برطانیہ اور کچھ مغربی ممالک کو دھوکے باز تک کہہ دیا تھا، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ، امریکا یورپی ممالک کو اپنے ساتھ لیتا ہے پھر چھوڑ دیتا ہے، عراق اور شام میں دہشت گردوں کی حمایت میں اس نے یورپی ممالک کو اپنے ساتھ لیا اور بعد میں چھوڑ دیا، دہشت گردی سے نقصان کو یورپی ممالک کا ہو رہا ہے دہشت گرد امریکا تک تو نہیں پہنچ پاتے؟ آپ کی نظر میں یورپ اب اس حالت میں آ سکتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی پالیسی امریکا سے الگ کرے؟
جواب : بالکل صحیح بات ہے، بہت ہی الٹی بات ہے، میں نے یورپی یونین کے حکام سے ملاقات میں یہ بات کہی تھی کہ آپ خود کو اقتصادی طاقت بنانے کی کوشش کریں، آپ ہر معاملے میں امریکا کی پالیسی کی پیروی نہ کریں، لیکن جیسا کے آپ نے کہا کہ کچھ معاملے میں امریکا نے یورپ کو نہ چاہنے کے باوجود بھی کھینچ لیا، اس میں کہیں ہوتا ہے کہ صیہونی طاقتیں ہیں یا یورپی یونین کی جو لابی ہے، اس میں صیہونی طاقتیں بہت مضبوط ہیں، وہ لابی امریکا کے حوالے سے کچھ ایسا کرتی ہیں جس سے یورپی حکام امریکا کی پیروی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔