الوقت - فرانس کے شہر پیرس اور ترکی کے شہر استنبول میں دھماکوں کے بعد تازہ واقعے میں بلجیم کے دارالحکومت برسلز کے ایرپورٹ میں دھماکے ہوئے۔
اس میں دو درجن افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ظاہر کیا گیا۔ حملے کی نوعیت اور نقصانات کا اندازہ کرتے ہوئے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا گیا۔ دہشت گردی کا نیٹ ورک اگر پورے یوروپ میں پھیلا ہوا ہے تو یہ یوروپی طاقت اس نیٹ ورک کا پتہ چلانے سے قاصر رہی ہے۔
ان دھماکوں سے مندرجہ ذیل چیزیں سمجھی جا سکتی ہیں:
1- دہشت گرد گروہ داعش جو زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے وہ مغربی سیکورٹی اہلکاروں اور ماہرین کی توقع سے زیادہ طاقتور ہے اور شام، عراق اور لیبیا میں داعش کے ٹھکانوں پر مغربی ممالک کے ہوائی حملوں کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور یہ تنظیم کمزور نہیں ہوئی ہے۔
2- داعش مغربی ممالک میں 18 مہینوں کے دوران سیکڑوں جوانوں کو ٹرینگ دینے اور اپنے گروہ میں شامل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے لئے اس نے سوشل میڈیا، میڈیا اور اپنے داخلی ایجنٹوں کا سہارا لیا ہے۔ انہیں ذرائع سے اس نے اپنے جنگجوؤں کو بم بنانے اور دھماکہ کرنے کی بھی ٹرینگ دی ہے۔
3- برسلز اور اس سے پہلے پیرس دھماکوں نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دھماکے لاچار اور مجبور افراد نے نہیں کئے بلکہ یہ داعش کے مغربی ممالک میں پھیلے نیٹ ورک کے ارکان نے کئے ہیں جن کو شام کے شہر رقہ اور موصل سے بلاواسطہ احکامات مل رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں لیبیا کے سرت علاقے سے بھی ہدایات جاری کی گئی ہيں۔ لیبیا کا شہر سرت، داعش کا دوسرا ہیڈکواٹر سمجھا جاتا ہے۔
4- دہشت گرد گروہ داعش نے بہت تیز نے شام، عراق اور لیبیا سے باہر نکل کر مغربی ممالک میں کاروائیاں شروع کر دیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکی قیادت میں بنے عالمی اتحاد کے حملوں سے اسے کوئی خوف و ہراس نہیں ہے اور جب چاہے اور جہاں چاہے حملے کر سکتا ہے۔
مغربی ممالک کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے شام، عراق اور لیبیا میں داعش کی بیخ کنی کے لئے اپنے جنگی طیاروں کو بھیجا، حملہ کیا اور گزشتہ 18 میہنے کے دوران داعش کے سرغنوں کو نشانہ بنایا لیکن انہوں نے داعش کے انتقامی اقدامات کے بارے میں ذرہ برابر بھی غور نہیں کیا اور ائیرپورٹ اور حساس مقامات پر پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کے باوجود دہشت گردانہ حملوں سے ثابت ہوا کہ مغرب کے سیکورٹی گھیرے میں سیندھ لگائی جا سکتی ہے۔
یہ بات بارہا کہی جا چکی ہے کہ فوجی حل جس پر امریکا اور اس کے اتحادی اعتماد کر رہے ہیں وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اگر علاقے اور مشرق وسطی کی صورتحال پر ایک نظر ڈالیں تو ہم کو پتا چل جائے گا کہ مشرق وسطی کی جو صورتحال ہے اور علاقہ جن حساس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ امریکا اور اس کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ یہ ممالک اسرائیل کے مفاد میں علاقائی طاقتوں کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔
شروعات میں مغربی ممالک نے داعش کو بہت ہی ہلکے ہاتھوں سے لیا اور یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ صرف مشرقی وسطی اور شمالی افریقہ کے ممالک کے لئے ہی خطرہ ہے لیکن جب اس دہشت گرد گروہ نے علاقے سے نکل کر مغربی ممالک اور ان کے مفاد پر حملے شروع کر دیئے تب مغربی ممالک خواب خرگوش سے بیدار ہوئے اور انہوں نے اس پر لگام لگانے کے لئے تابڑ توڑ حملے کر دیئے لیکن سوال یہ ہے کہ 18 مہینہ گزرنے کے بعد کیا ان کا مطلوبہ نتیجہ برآمد ہوا۔
پیرس حملوں کے پیش نظر یوروپی ممالک نے یہ ضروری پالیسی بنائی تھی کہ دہشت گردی کے خطرات سے خبردار ہوجائیں اور اس کے مقابلے کے لئے خود کو منظم کریں لیکن یوروپ میں تارکین وطن کے بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد نیٹ ورک کے لوگ سیکورٹی کی آنکھ میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو اس طرح کے واقعات کو روکنا ضروری ہے۔
ہر دہشت گردانہ حملے کے بعد یوروپ اور مغرب کے عوام کے اندر اسلاموفوبیا کا جو بخار پھیلایا جاتا ہے، یہی حرکت دن بہ دن عالمی امن کو خطرناک دور میں لے جارہی ہے۔ اسلام مخالف جذبات میں اضافہ کرنے سے یوروپ کو ہی بے چینی اور بدامنی کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی اور انسانی جانوں کا اتلاف اسلامی تعلیمات کے مغائر ہے۔
اس دہشت گردی کی وبا کو فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عالمی برادری دہشت گردی سے نمٹنے میں اسلام اور مسلمان کی بحث میں ہی الجھی رہی تو حالات سنگین ہوجائیں گے۔