الوقت-اصلاحات اور بہتر حکومت چلانے کے ادارے میں افغان صدر کے خصوصی نمائندے جو سیکوریٹی کے جائزے کے لئے صوبہ تخار کے دورے پر ہیں کہا ہے کہ افغان حکومت کے پاس حکومت مخالف مسلح گروہوں کے خلاف کاروائی کے لئے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں ہے اور افغان سیکوریٹی فورسز اکیلی ملک میں امن و امان قائم نہیں کرسکتیں۔ان کا کہنا تھا تین لاکھ پچاس ہزار افغان فوجی بیس ہزار طالبان کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔احمد ضیا مسعود نے تخار صوبے کے قبائلی سرداروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دشمن کی سازش ہے کہ شمالی علاقوں کو بدامنی کا شکار کرے تاہم طالبان اور دیگر دہشتگردوں سے جنگ ایک قومی فریضہ ہے جو ہر محب وطن شہری پر فرض ہے۔انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ طالبان آنے والی بہار میں قندوز،تخار اور بداخشاں وغیرہ پر بڑے حملے کرسکتے ہیں۔ان کا مذید کہنا ہے دہشتگردوں کی اگر بیرونی مدد بند ہوجائے تو افغانستان میں ان کا خاتمہ ممکن ہے۔ا فغانستان میں مجاہد کمانڈروں کی ہر شعبے میں موجودگی ضروری ہے اور موجودہ جنگ کی قیادت ان مجاہدیں کے پاس ہونی چاہیے۔اگر مجاہدین نے پوری تیاری کے ساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ نہ کیا تو شمال مشرقی صوبے طالبان کے قبضے میں چلے جائیں گے۔اگر ہم امن و صلح کے منتظر ہیں تو ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
مجاہدین کونسل کو ایک بریگیڈ تشکیل دے کر افغان فوج میں شامل ہوجانا چاہیے۔ہر افغان شہری کا فریضہ ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں اپنا حصہ ڈالے۔ان کا کہنا تھا ہم جنگ کے طالب نہیں ہیں لیکن امن مذاکرات وقت کا ضیاع ہے ۔
احمد ضیا کے بیانات کے مطابق اس نکتے پر توجہ دینا ہوگی کہ افغانستان میں امن و صلح ایک مبہم معما ہے ۔امریکی فوجوں نے امن و امان کی برقراری کے نام پر افغانستان پر حملہ کیا تھا لیکن سیکوریٹی بہتر ہونے کی بجائے مذید خراب ہوئی ہے اور دہشت گرد گروہوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت جنگ جنوب سے شمالی علاقوں تک پھیل گئی ہے اور اس وقت ملک کے مختلف علاقوں میں طالبان،داعش،حقانی اور حکمت یار کے مسلح گروہ سرگرم عمل ہیں۔امریکہ دہشتگردی کے مقابلے ،امن و امان کی بحالی اور صلح کے قیام کے دعووں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا تھا لیکن ان میں ایک ایشو پر بھی امریکہ نے صدق دل سے عمل نہیں کیا۔امریکہ جنگ کے میدان میں طالبان پر قابو نہیں پا سکا اب صلح کے زریعے کوششیں کررہا ہے ابھی تک امریکہ،چین،پاکستان اور افغانستان کی سطح پر تین بار مذاکرات ہوچکے ہیں اور چودہ مارچ کو مذاکرات کا آئندہ دور ہونا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جن مذاکرات میں جنگ بندی کا خیال نہ رکھا جائے وہاں مذاکرات سراب اور فریب ہوتے ہیں۔
احمد ضیا مسعود جن کا تعلق شمالی اتحاد سے ہے صوبہ تخار کے دورے پر طالبان کے مقابلے کے لئے مجاہدیں کا بریگیڈ تشکیل دینے کی بات کررہے ہیں تاکہ طالبان کے خلاف مضبوط محاز بنایا جاسکے یہ وہ کام ہے جس سے ماضی میں کوتاہی برتی گئی ہے ۔اسکے علاوہ اشرف غنی کے بعض اقدامات بھی طالبان کی طاقت کے اظہار کا موجب بنے۔اشرف غنی امریکہ کی طرح طالبان کو ایک شورشی گروہ سمجھتے ہیں جنہیں حکومت میں حصہ ملنا چاہیے دوسری طرف مجاہدین گروہوں کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت طالبان گروہ کے جنگی جرائم کو کیوں بھول رہی ہے اور انکے خلاف تو جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہیے۔بہرحال طالبان سے مقابلے کے لئے مختلف گروہوں کے متضاد روئیے اور اشرف غنی کی حکومت کی ناتوانی نیز مغربی اور علاقے کے بعض ممالک کی مداخلت طالبان کی قوت کے اظہار کا باعث بنی ہے اسی کے ساتھ ساتھ خطے کے بعض ممالک کی غلط پالیسیاں افغانستان میں داعش کے نفوز اور پروان چڑھنے کا باعث بن رہی ہیں ۔طالبان کو ہرسال سینکڑوں ملین ڈالر منشیات کی اسمگلنگ کے زریعے حاصل ہوتے ہیں اور اس میں انہیں خطے کے بعض ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے ۔اسی وجہ سے یہ نظر آرہا ہے کہ طالبان گروہ نے نہ اس سے پہلےافغان حکومت اور بیرونی ممالک کے سامنے گھٹنے ٹیکے تھے اور نہ ائندہ ٹیکے گا اسی لئے احمد ضیا مسعود نے طالبان سے مذاکرات کو وقت کا ضیا قرار دیا ہے۔