الوقت- اگر کوئي یہ سوچتا ہے کہ ایران کا اسلامی انقلاب گيارہ فروری انیس سو اناسی کو ختم ہوگيا تھا یہ اگر فرانس کے انقلاب کبیر کےبارے میں یہ خیال جاتا ہے کہ اھل فرانس کی تحریک سترہ سو نواسی میں ختم ہوگئي تھی تو گویا اس نے انقلابات کی ماہیت کو نہیں سمجھا ہے۔ دراصل انقلاب دفعتا واقع ہونے والا کوئي حادثہ نہیں ہوتا کہ چنگاری نکلے اور ختم ہوجائے۔ انقلاب ایک زندہ مخلوق کی طرح ہوتا ہے تدریجا انجام پاتا ہے۔ یہ تدریجی تحریک تین مرحلوں میں دیکھی جاسکتی ہے اور اس وقت ہم کھ سکتے ہیں کہ کوئي انقلاب باقی ہے یا دم توڑ گيا۔
پہلے مرحلے میں انقلاب ماضی کی عمارت کو ڈھادیتا ہے اور پہلے کا نظام ختم کردیتا ہے اسکے بعد اپنے اھداف تک پہنچنے کے لئے انقلابی نظام تشکیل دیتا ہےاور تیسری مرحلے میں اس نظام کی اساس پر حکومت سازی اور موجودہ صورتحال کی اصلاح کرتا ہے۔ انقلابوں کو اپنی زندگي کے لئے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے تا کہ دو عناصر کو اپنے اندر زندہ رکھ سکیں۔ پہلا عنصر انقلاب کے اصول و اھداف و مقاصد کا ہے اور دوسرا عنصر انقلاب کے کارآمد ہونے اور معاشرےکے مسائل اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے کی توانائيوں کا ہے۔ اگر انقلابوں میں یہ توانائي نہ ہو کہ وہ اپنے اھداف و مقاصد کو مد نظر رکھ کر آگے بڑھیں تو وہ کچھ ہی دنوں میں نیست و نابود ہوجائيں گے۔ اس کی ایک واضح مثال مصر کے عوام کا انقلاب ہے۔مصر کے انقلابیوں نے اپنی راہ کھودی اور اپنے اھداف و مقاصد کی راہ پر چلنے سے قاصر رہے۔ مصر کے انقلابیوں نے سامراجیوں اور مستکبریں کا دل جیتنے کے لئے اپنے اصولوں کو نظر انداز کردیا اور اپنے بنیادی نعرے بھول گئے۔ آپ نے دیکھا کہ مصر کے انقلابیوں کا کیا حشر ہوا۔ تیس برسوں تک مصری قوم کو ذلیل کرنے والا ڈکٹیٹر جیل سے رہا ہوگيا اور جو لوگ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے تھے انہی پر مقدمہ چلایا گيا اور کیا بعید کہ انہیں پھانسی کی سزا بھی ہوجائے۔
مصر کا انقلاب پہلے ہی مرحلے میں سرکوب کردیا گيا یعنی ابتدا ہی میں اس کا گلا گھونٹ دیا گيا ہے۔
اسی طرح آپ مغرب میں بہت سی تبدیلیاں لانے والے انقلاب، فرانس کے انقلاب کبیر ہی کو دیکھ لیجئے۔ یہ انقلاب اٹھارویں صدی کے آخری برسوں میں آیا تھا۔ فرانس کا انقلاب دراصل یورپ کا انقلاب تھا اور یہ تحریک عوام اور بادشاہوں کے درمیاں ایک تازہ اور آئيڈیالوجیکل رسہ کشی تھی جس کے نتیجے میں فرانسیسی عوام پرانے ریاستی اداروں کوختم کرکے اپنے نئے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرناچاہتے تھے۔ فرانس کے انقلاب نے ابتدا میں بادشاہت ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرکے جمہوری حکومت لانے میں کامیابی حاصل کرلی لیکن بیس برسوں بعد فرانس کے انقلاب کبیر کے نتیجے میں جو چيز بدلی وہ صرف بادشاہ تھا۔ اٹھارہ سو نو میں ایک اور بادشاہ نپولین بوناپارت برسر اقتدار آتا ہے اور سلطان و بادشاہ کی طرح اس کی تاج گذاری کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ یہ شخص حقیقی معنی میں بادشاہی کرتا ہے۔ نپولین بونا پارت کی حکومت میں فرانس کے انقلاب کے اقدار کہیں نہیں دکھائي دیتے۔ فرانس کا انقلاب جو یورپ کی معاصر تاريخ میں ایک نیا موڑ ہے اور مغرب جس پر فخر بھی کرتا ہے وہ انقلابات کے دو فوق الذکر تعمیری عناصر سے خالی ہونے کی وجہ سے اپنے پہلے بیس برسوں میں ہی کھوکھلا ہوگیا اور تقریبا ختم ہوگيا۔
مغرب و مشرق کا روایتی انداز
تقریبا دوسوسال کے وقفے کے بعد انیس سو اناسی میں ایران کے عوام نے اسلام کی تعلیمات کے سہارے اور اپنے پروردگار کی مرضی کے لئے تحریک چلائي اور قیام کیا۔ یہ انقلاب آج سینتیس برس کا ہوچکا ہے۔یعنی اس کی عمر فرانس کے انقلاب سے سترہ برس زیادہ ہے۔اسلامی انقلاب نے ابتدا میں فکری اور ذہنی تبدیلیاں پیدا کیں اور دنیا میں رائج تصورات کو باطل قراردیا، اسلامی انقلاب نے مشرق و مغرب کے روایتی تصورات اور اصولوں کو جڑ سے غلط قراردیے دیا ان کا کھوکھلا پن ثابت کردیا۔ سب سے بڑا اصول جو اسلامی انقلاب نے توڑا یہ تھا کہ دین کسی بھی قوم کو تحرک میں لانے اور اسے انقلابی تحریک شروع کرنے کی توانائي عطا کرسکتا ہے۔ واضح رہے مغرب اور مشرق دونوں مل کر یہ ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے تھے کہ خدا مرچکا ہے اب دین کا کوئي کام نہیں رہا لیکن اسلامی انقلاب نے اس تصور کو باطل قراردیا۔
دوسرا تصور جو اسلامی انقلاب نے باطل قراردیا یہ ہے کہ دینی انقلاب حکومت بنا سکتا ہے اور ملک کا نظام بھی چلا سکتا ہے۔ انقلابیوں کی ماہرین کی کونسل نے اسلامی مملکت کا آئين تیار کیا اور مغرب و مشرق کے اس گھناونے پروپگینڈے پر خط بطلان کھینچ دیا کہ دین حکومت نہیں چلا سکتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نام سے اسلامی حکومت کے برسر اقتدار آنے سے دشمن اپنی باتوں سے مکر گئے۔ ان لوگوں نے اس مرتبہ کہنا شروع کیا کہ اسلامی انقلاب کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی اسلامی حکومت بہت جلد ختم ہوجائے گي ، وہ خطروں کے مقابل اپنے تحفظ اور بقا کی توانائي نہیں رکھتی ہے۔دشمنون نے ایران میں علیحدگي پسندی کی شورشیں شروع کروادیں، لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی، بھرپور جنگ مسلط کروادی لیکن انقلاب زندہ رہا سلامت رہا اور روز بروز ترقی کرتا رہا۔
انقلاب کی بقا کے عوامل
اگر ہم اھداف و مقاصد اور انقلاب کے مفید ہونے کو اس کی بقا کے عوامل قراردیں تو یہ دیکھیں گے کہ اسلامی انقلاب نے اپنی پوری تاریخ میں حکومت سازی کے بعد اپنے ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام بھی پیدا کیا ہے۔ یہ کام اس نے علاقے میں بھی کیا ہے جو ایک بڑا ہی پرتلاطم اور طوفانی علاقہ ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے علم و سائنس میں بھی کافی ترقی کی ہے یہانتک کہ صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے ایران کی سائنسی ترقی پر تشویش ظاہر کی جو آج تک جاری ہے۔ ثقافتی لحاظ سے دشمنوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود آج بھی ایرانی عوام میں بھرپور طرح سے انقلابی جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ انقلابی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔