نوے کی دہائي سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اقوام متحدہ کے ساتویں منشور کے بارے میں نئی وضاحت پیش کرتے ہوئے خطروں، امن و صلح اور عالمی امن کے بارے میں بھی نئے نظریات اور وضاحتیں پیش کی اور اس سلسلے میں نئے فیصلے کئے جن کی اب تک کوئي مثال نہیں ملتی ہے۔ سرد جنگ کا خاتمہ اور مشرقی اور مغربی بلاکوں کی صف آرائي کے ختم ہونے سے اس سے پہلے کے زمانے کےبرخلاف بڑی طاقتوں نے اقوام متحدہ کے منشور کی ساتویں شق سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا۔ اس زمانے میں نہ صرف جنگیں بلکہ سماجی اور انسانی مسائل سے جو عدم استحکام پیدا ہوا ہے اسے عالمی امن کے لئے خطرہ قراردیا گيا ہے اور اسی بنیاد پر انسان دوستانہ مسائل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مداخلت کرنا پڑا اور اس کے نتائج جو بھی برآمد ہوئے انہیں بھی عالمی امن کے لئے خطرہ قراردیا گيا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دوہزار گيارہ میں بحران کے حالات پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کیا جو بذات خود ایک قابل غور مسئلہ ہے۔ دراصل اسی جگہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگي میں دوہرے معیارات شروع ہوتے ہیں اور یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ بڑی طاقتوں کے سیاسی مفادات کےاثرات عالمی سطح پر امن وصلح قائم رکھنے والے اس ادارے پر بھر پور طرح سے پڑ رہے ہیں۔
سلامتی کونسل نے لیبیا کے مسئلے میں عام شہریوں کی حمایت کے بہانے اس ملک میں فوجی مداخلت کی لیکن بحرین میں جہان اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے اور انہیں آل خلیفہ کی حکومت بے رحمی سے کچل رہی ہے خاموش تماشائي بنی ہوئي ہے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ردعمل دکھاے جانے کےباوجود اب تک اس نے آل خلیفہ کی مجرمانہ کاروائيوں کی مذمت میں کوئي بیان جاری نہیں کیا ہے۔
بحرین میں مخالفین کو کچلنے میں آل خلیفہ حکومت کے اقدامات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمون کی جانب سے اس سلسلے جو رپورٹیں پیش کی گئي ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ کی حکومت ایک منظم ریاستی پالیسی کے تحت اپنے مخالفیں کو کچلنے کے اقدامات کررہی ہے اور اس نے مخالفین کے خلاف یکسان رویہ اپنا رکھا ہے اور کسی طرح کی نرمی نہیں برتتی ہے۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہےکہ انسانیت سوز کاروائيوں کے معیاروں کے پیش نظر آل خلیفہ کی مجرمانہ کاروائيوں کو انسانیت کے خلاف کاروائياں قراردیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے عام شہریوں کے خلاف وسیع اور منظم حملے انسانیت سوز کاروائيون میں شمار ہوتے ہیں اور آل خلیفہ کے سکیورٹی کارندے بارہا اس طرح کے حملے کرچکے ہیں۔ دوسری طرف سے بحرین میں دسیوں برسوں سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف جاری متعصبانہ رویہ جس سے شیعہ اکثریت بڑی پریشان ہے اور جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے متعدد مرتبہ وارننگ بھی دی ہے نیز اسی کے ساتھ ساتھ سنی سرکاری فورسز کی متعصبانہ کارکردگي، شیعہ مسلمانوں کا پیچھا کرنا اور مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر انہیں اذیت و آزار پہنچانا انسانیت سوز اقدامات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ قانون کے بعض ماہرین کی نظر میں بحرین کے شاہی خاندان کو نسل کشی اور انسانیت سوز کاروائيوں کا ذمہ دار بھی قراردیا جاسکتا ہے۔
بحرین کے حالات کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بحرین میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی افواج کی موجودگي جو بتایا جاتا ہےکہ آل خلیفہ کے بادشاہ کی درخواست پر سپر جزیرہ کے عنوان کے تحت بحرین آئي ہیں اور جن کے پاس یہ بہانہ ہے کہ وہ بحرین کی بنیادی تنصیبات کی حفاظت کے لئے آئي ہیں جارح افواج قراردیا جاسکتا ہے کیونکہ عوام نے ان کے خلاف بھرپور احتجاج کیا ہے لیکن حکومت آل خلیفہ نے سعودی اور اماراتی افواج کی مدد سے عوام کے اس احتجاج کو کچل کررکھ دیاہے۔ یہ اقدام گرچہ بادی النظر میں عالمی قوانین کے برخلاف دکھائي دے لیکن کیونکہ ایک حکومت قانونی طور پر دوسرے ملک کی فوج کو اپنےملک آنے کی دعوت دے سکتی اور اس سے مدد کی خواستگار ہوسکتی ہے جیسا کہ لبنان نے انیس سو اٹھاون میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا وہ لبنان کی حمایت کی غرض سے اور داخلی سطح پر کمیونسٹ خطروں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی افواج لبنان میں تعینات کرے۔ اس اقدام کے قانونی ہونے میں کسی طرح کا شائبہ نہیں ہے۔ لیکن بحرین کا مسئلہ الگ ہے کیونکہ بحرین کے سلسلے میں سعودی عرب اور امارات یہ دعوی کرتے ہیں کہ سپر جزیرہ کے رکن ملکوں کے درمیاں معاہدے کی رو سے بیرونی خطرے کے مقابل ان کے لئے ایک دوسرے کی حمایت ضروری ہے اسی وجہ سے انہوں نے بحرین کے لئے اپنی افواج بھیجی ہیں۔ واضح رہے بحرین پر کسی بھی ملک نے حملہ نہیں کیا ہے اور عوام کا پرامن انقلاب کسی بھی طرح سے اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ اس معاہدے کے تحت بیرونی افواج بلائي جائيں۔ ان تمام مسائل کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جس کی ذمہ داری عالمی امن کی حفاظت ہے مغربی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے جن میں امریکہ بھی شامل ہے اب تک بحرین کے حالات کا نوٹس نہیں لیا ہے۔ سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے سے اس طرح کی غفلت اور تساہلی ناقابل قبول ہے کیونکہ اس ادارے کو تمام ملکوں کے ساتھ یکسان رویہ اپنا نا چاہیے۔ بہرحال اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا یہ رویہ قابل غور ہے۔
نوے کی دہائي سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اقوام متحدہ کے ساتویں منشور کے بارے میں نئی وضاحت پیش کرتے ہوئے خطروں، امن و صلح اور عالمی امن کے بارے میں بھی نئے نظریات اور وضاحتیں پیش کی اور اس سلسلے میں نئے فیصلے کئے جن کی اب تک کوئي مثال نہیں ملتی ہے۔ سرد جنگ کا خاتمہ اور مشرقی اور مغربی بلاکوں کی صف آرائي کے ختم ہونے سے اس سے پہلے کے زمانے کےبرخلاف بڑی طاقتوں نے اقوام متحدہ کے منشور کی ساتویں شق سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا۔ اس زمانے میں نہ صرف جنگیں بلکہ سماجی اور انسانی مسائل سے جو عدم استحکام پیدا ہوا ہے اسے عالمی امن کے لئے خطرہ قراردیا گيا ہے اور اسی بنیاد پر انسان دوستانہ مسائل میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مداخلت کرنا پڑا اور اس کے نتائج جو بھی برآمد ہوئے انہیں بھی عالمی امن کے لئے خطرہ قراردیا گيا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دوہزار گيارہ میں بحران کے حالات پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کیا جو بذات خود ایک قابل غور مسئلہ ہے۔ دراصل اسی جگہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگي میں دوہرے معیارات شروع ہوتے ہیں اور یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ بڑی طاقتوں کے سیاسی مفادات کےاثرات عالمی سطح پر امن وصلح قائم رکھنے والے اس ادارے پر بھر پور طرح سے پڑ رہے ہیں۔
سلامتی کونسل نے لیبیا کے مسئلے میں عام شہریوں کی حمایت کے بہانے اس ملک میں فوجی مداخلت کی لیکن بحرین میں جہان اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے اور انہیں آل خلیفہ کی حکومت بے رحمی سے کچل رہی ہے خاموش تماشائي بنی ہوئي ہے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ردعمل دکھاے جانے کےباوجود اب تک اس نے آل خلیفہ کی مجرمانہ کاروائيوں کی مذمت میں کوئي بیان جاری نہیں کیا ہے۔
بحرین میں مخالفین کو کچلنے میں آل خلیفہ حکومت کے اقدامات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمون کی جانب سے اس سلسلے جو رپورٹیں پیش کی گئي ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ آل خلیفہ کی حکومت ایک منظم ریاستی پالیسی کے تحت اپنے مخالفیں کو کچلنے کے اقدامات کررہی ہے اور اس نے مخالفین کے خلاف یکسان رویہ اپنا رکھا ہے اور کسی طرح کی نرمی نہیں برتتی ہے۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہےکہ انسانیت سوز کاروائيوں کے معیاروں کے پیش نظر آل خلیفہ کی مجرمانہ کاروائيوں کو انسانیت کے خلاف کاروائياں قراردیا جاسکتا ہے۔ یاد رہے عام شہریوں کے خلاف وسیع اور منظم حملے انسانیت سوز کاروائيون میں شمار ہوتے ہیں اور آل خلیفہ کے سکیورٹی کارندے بارہا اس طرح کے حملے کرچکے ہیں۔ دوسری طرف سے بحرین میں دسیوں برسوں سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف جاری متعصبانہ رویہ جس سے شیعہ اکثریت بڑی پریشان ہے اور جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے متعدد مرتبہ وارننگ بھی دی ہے نیز اسی کے ساتھ ساتھ سنی سرکاری فورسز کی متعصبانہ کارکردگي، شیعہ مسلمانوں کا پیچھا کرنا اور مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر انہیں اذیت و آزار پہنچانا انسانیت سوز اقدامات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ قانون کے بعض ماہرین کی نظر میں بحرین کے شاہی خاندان کو نسل کشی اور انسانیت سوز کاروائيوں کا ذمہ دار بھی قراردیا جاسکتا ہے۔
بحرین کے حالات کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بحرین میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی افواج کی موجودگي جو بتایا جاتا ہےکہ آل خلیفہ کے بادشاہ کی درخواست پر سپر جزیرہ کے عنوان کے تحت بحرین آئي ہیں اور جن کے پاس یہ بہانہ ہے کہ وہ بحرین کی بنیادی تنصیبات کی حفاظت کے لئے آئي ہیں جارح افواج قراردیا جاسکتا ہے کیونکہ عوام نے ان کے خلاف بھرپور احتجاج کیا ہے لیکن حکومت آل خلیفہ نے سعودی اور اماراتی افواج کی مدد سے عوام کے اس احتجاج کو کچل کررکھ دیاہے۔ یہ اقدام گرچہ بادی النظر میں عالمی قوانین کے برخلاف دکھائي دے لیکن کیونکہ ایک حکومت قانونی طور پر دوسرے ملک کی فوج کو اپنےملک آنے کی دعوت دے سکتی اور اس سے مدد کی خواستگار ہوسکتی ہے جیسا کہ لبنان نے انیس سو اٹھاون میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا وہ لبنان کی حمایت کی غرض سے اور داخلی سطح پر کمیونسٹ خطروں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی افواج لبنان میں تعینات کرے۔ اس اقدام کے قانونی ہونے میں کسی طرح کا شائبہ نہیں ہے۔ لیکن بحرین کا مسئلہ الگ ہے کیونکہ بحرین کے سلسلے میں سعودی عرب اور امارات یہ دعوی کرتے ہیں کہ سپر جزیرہ کے رکن ملکوں کے درمیاں معاہدے کی رو سے بیرونی خطرے کے مقابل ان کے لئے ایک دوسرے کی حمایت ضروری ہے اسی وجہ سے انہوں نے بحرین کے لئے اپنی افواج بھیجی ہیں۔ واضح رہے بحرین پر کسی بھی ملک نے حملہ نہیں کیا ہے اور عوام کا پرامن انقلاب کسی بھی طرح سے اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ اس معاہدے کے تحت بیرونی افواج بلائي جائيں۔ ان تمام مسائل کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جس کی ذمہ داری عالمی امن کی حفاظت ہے مغربی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے جن میں امریکہ بھی شامل ہے اب تک بحرین کے حالات کا نوٹس نہیں لیا ہے۔ سلامتی کونسل جیسے عالمی ادارے سے اس طرح کی غفلت اور تساہلی ناقابل قبول ہے کیونکہ اس ادارے کو تمام ملکوں کے ساتھ یکسان رویہ اپنا نا چاہیے۔ بہرحال اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا یہ رویہ قابل غور ہے۔