الوقت- پاکستان میں فوج اور حکومت کے درمیان اختلاف زبان ذد خاص و عام رہا ہے ان میں ایک اہم مسئلہ پاکستان کے سابقہ آرمی چیف پرویز مشرف کا کا عدالتی ٹرائل ہے۔مشرف سے پہلے کسی بھی آرمی چیف کو عدالتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔اسی تناظر میں کہا جارہا ہے کہ پرویز مشرف کو ملنے والی حالیہ رعایتوں کے پیچھے حکومت اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی ہے۔تازہ حبروں کے مطابق
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی انسداد دہشت گردی عدالت نے اس ملک کے سابق صدر پرویز مشرف کو ٹھوس ثبوتوں کی عدم موجودگی کی بنا پر اکبربگٹی قتل کیس سے بری کر دیا ہے۔-
پرویز مشرف اور ان کے دو دیگر وزراء کو جنوری دوہزار پندرہ میں جمھوری وطن پارٹی کے سربراہ نواب اکبربگٹی قتل میں مورد الزام ٹھرایا گیا تھا-
مری قبیلے کے سردار نواب اکبر بگٹی ، کہ جن کا تعلق صوبہ بلوچستان کے کوہلو علاقے سے تھا، دوہزار تین سے دوہزارچھ تک اس تحریک کی سربراہی کر رہے تھے جس کا مقصد صوبہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کا حصول تھا- نواب اکبر بگٹی کئی مہینوں تک کوہلو کے پہاڑی علاقوں میں روپوش تھے-
کہا جاتا ہے کہ کچھ پاکستانی فوجی اس پہاڑی علاقے میں داخل ہوئے اور پھر کچھ ہی دیر بعد ایک زبردست دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں بگٹی کے سینتیس حامی اور اکیس پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے-
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو جنھوں نے انیس سو ننانوے میں بغیر کسی خون خرابے کے نواز شریف کو اقتدار سے الگ کر دیا تھا، اس وقت ملک سے غداری کے الزام کا سامنا ہے-
سیاسی تجزیہ نگار کی نگاہ میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کا نواب اکبر بگٹی قتل کیس کے الزام سے بری ہونا اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستانی فوج، حکومت اور عدلیہ کے درمیان تعاون مضبوط ہوا ہے- دوہزارتیرہ میں نواز شریف کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کی بری فوج کے سابق سربراہ کے خلاف متعدد الزامات عائد کئے گئے جن میں اکبربگٹی قتل میں ملوث ہونے اور ملک سے خیانت کا الزام بھی شامل ہے جو ثابت ہونے کی صورت میں سنگین سزا پر منتج ہو سکتا ہے- سن انیس سو ننانوے میں نواز شریف کے خلاف ان کی بغاوت نے پاکستان میں یہ شبہ پیدا کر دیا کہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ نواز اور عدلیہ پرویز مشرف سے انتقام لے رہی ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ابھی تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ پاکستان کی بری فوج کے کسی سربراہ پر مختلف الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا ہو اور یہ مسئلہ اس ملک کے جنریلوں کے لئے بہت سخت تھا- یہاں تک کہ حکومت مخالف، تحریک انصاف کے وسیع احتجاج سے ، کہ جو پاکستان کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر دھرنوں پر منتج ہوا ، پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کی برطرفی کا شبہ پیدا ہوگیاتھا- ہرچند نواز شریف ، بحران کو کنٹرول کرنے اور سیاسی مخالفتوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے اور پاکستان میں امن و سکون بحال ہوگیا لیکن بہت سے ماہرین نواز شریف حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کے نتائج کے سلسلے میں انتباہ دے رہے ہیں-
لیکن اب پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف راحیل شریف کے حالیہ غیر ملکی دورے اور دہشت گردی کے مقابلے نیز افغانستان میں استحکام قائم کرنے میں مدد کے لئے دونوں کے درمیان تعاون سے ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت اور فوج کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں – کیونکہ پیشاور میں فوج کے اسکول پر دہشت گردانہ حملے نے کہ جس میں ایک سو پینتیس طالبعلم ہلاک ہوئے تھے ، فوج اور اسلام آباد حکومت کو دہشت گردوں کے مقابلے کے لئے مزید تعاون پرمائل کر دیا ہے-
بہرحال سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے سابق صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے نواب اکبر بگٹی کے قتل سے بری ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی فوج ، حکومت اور عدلیہ کے تعلقات پر جمی برف پگھل رہی ہے کہ جو مسائل کے حل خاص طور پر افغانستان حتی ہندوستان کے ساتھ تعاون اور سیکورٹی کے شعبے میں مدد کر سکتی ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بگٹی کے قریبی حلقے ممکن ہے انسداد دہشت گردی عدالت کے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کریں-