~~الوقت- جب 1980ء كی دہائی ميں روسی اتحادی حكومت كمزور ہوچکی تهی، امريكہ دنيا كا فاتح بن رہا تها اور مشرقی روسی بلاک كو مغربی بلاک نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور كر ديا، مغربی بلاک كی سربراہی امريكہ كر رہا تها، اس بلاک ميں مغربی ممالک اور اس خطے كے امريكی اتحادی شامل تهے۔ آخركار مشرقی سوويت يونين 1991ء ميں ٹوٹی اور اسی سال امريكہ نے اسكا اعلان "نيو ورلڈ آڈر" كی شكل ميں كيا کہ اب اس دنيا كے سياه و سفيد كا مالک امريكا ہوگا۔ مشرق وسطٰى خدا كی نعمتوں سے مالا مال ہے، يہیں سے انسانيت كی تاريخ نے جنم ليا ہے، اديان سماوی كا منبع اور مركز بهی يہی ہے، يہیں سے انسانی تہذیبوں نے جنم ليا اور جو اس خطے پر قابض ہو جاتا ہے، اسكی ساری دنيا پر حكومت ہوتی ہے۔ اس خطے كی اكثريتی آبادى مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اسی لئے مغربی استعماری قوتوں نے ملكر بہت عرصہ پہلے جہان اسلام كے خلاف ايک منحوس سازش كے تحت غاصب صہيونی حكومت كی ارض مقدس فلسطين پر بنياد ركهی۔ رفتہ رفتہ امريكی و مغربی امداد اور حمايت سے صہيونی حكومت ايک بڑی طاقت كے طور پر ابهری، فقط فلسطين پر ہی نہیں بلكہ فلسطين كے ہمسايہ ممالک مصر و شام اور اردن و لبنان كی زمينوں پر بهی قبضہ كر ليا۔
ان مسلم و عرب ممالک نے متحد ہو كر اس صہيونی حكومت (اسرائيل) كے خلاف پچاس، ساٹھ اور ستر كی دہائيوں ميں جنگیں بهی كيں اور انہيں باقی عرب و مسلم ممالک كی حمايت بهی حاصل تهی، ليكن چونكہ عالم غرب دشمن كی حمايت كر رہا تها، لہذا انہيں شكست فاش كا سامنا كرنا پڑا اور ذلت و رسوائی كی نوبت يہاں تک پہنچی كہ مصر و اردن نے تو زمين كے عوض غاصب صہيونی وجود كو تسليم كرتے ہوئے سفارتی تعلقات بهی بنا لئے، ليكن شام و لبنان نے مقاومت كا راستہ اختيار كيا۔ مسلم و عرب عوام اور حكمران تو يہ بات كہنے لگے كہ اسرائيل ايک ناقابل شكست طاقت ہے۔ كيونكہ خطے كے اكثر حكمران امريكى غلام تهے، اس لئے دشمن كے ايجنڈے پر كام كر رہے تهے۔ وه خود تو جذبہ حب الوطنی اور عزت و غيرت، شرف و شجاعت اور صداقت و شراف و فاداری جيسی اسلامی و انسانی اقدار كے امين نہیں تهے بلكہ انہوں نے ايسے اقدار وجذبات كو كچلنے ميں بهی كوئی كسر نہیں چھوڑی۔
1980ء كے عشره كی ابتداء ميں اسرائيل فلسطينی مجاہدين كے تعاقب كے بہانے پورے ملک لبنان پر قابض ہوگیا، بزدلی كی يہ حالت تهی كہ بيروت اور ديگر شہروں ميں اس وقت لبنانی شكست خوردہ و ذليل عوام و اكابرین نے اسرائيلی فوجيوں اور ٹینکوں كی راه ميں پهول اور چاول نچهاور كئے۔ ايسے نازک ترين دور ميں علماء جبل عامل و بقاع كے تربيت يافتہ اور مدرسہ كربلا سے عشق ركهنے والى مختصر سی جماعت حزب الله لبنان كی شكل ميں ميدان ميں اترى، جنكا اعتماد فقط اور فقط اللہ تبارک و تعالٰى كی ذات پر تها۔ انہوں نے كسی مادی خواہش يا دنياوی منصب كے لئے نہیں بلكہ مادر وطن كو صہيونی نجس پنجوں سے آزاد كرانے اور دين مبين اسلام كے اقدار كی احياء كے جذبہ كے تحت قيام كيا، تعليمات قرآن و اہل البيت عليهم السلام كی راہنمائی اور جذبہ جہاد و شهادت سے مسلح ہو كر انہوں نے بزدل صہيونی فوج كی حقيقت دنيا كو دكها دی۔
وه اسرائيلی فوج جسے سب عرب و مسلم ممالک ملكر شكست نہ دے سكے، بلكہ اسے "قوة لا تقهر"ناقابل شكست طاقت تسليم كرچكے تهے، حزب الله لبنان كے سرفروش مجاہدين نے اسے دو بار شكست دی۔ ايک بار مئی 2000ء میں، جب اسرائيل كو لبنان سے بهاگنے پر مجبور كيا، دشمن ذليل و رسواء ہو كر جنوبی لبنان سے نكلا۔ دوسری بار جب اسرائيليوں نے جولائی 2006ء ميں لبنان پر جنگ مسلط كی، انہوں نے اعلان كيا كہ وه حزب الله كی پہلی اور دوسرے درجے كی قيادت كو قتل كريں گے اور مقاومت كی عسكری طاقت تباه كر ديں گے، جنوبی لبنان كی نہر الليطانی تک كے علاقے پر قبضہ كركے وہاں پر اپنے لئے بفرزون بنائيں گے اور اسرائيلی فوجيوں كو آزاد كرائيں گے۔ ليكن 33 روزه گھمسان کی جنگ ہوئی، يہ عرب اسرائيل ايسی جنگ تهی، جس ميں خليجی اور عرب ممالک اسرائيل كا ساتهـ دے رہے تهے، حتٰى کہ لبنان كے وزيراعظم فؤاد سنيورا اور اسکی سعد الحريری پارٹی كی بهی دلی تمنا تهی كہ حزب الله كو مكمل طور پر كچل ديا جائے، انكی حكومت كے وزير احمد فتفت تو جنوب ميں اسرائيلی حملہ آور فوجيوں كو اپنے ہاتھ سے چائے پلاتے نظر آئے۔ حزب الله نے اس جنگ ميں تنہا اسرائيل كو نہیں بلكہ اس كے ماوراء سب قوتوں كو ذلت آميز شكست سے دوچار كيا۔
كيا حزب الله دہشتگرد جماعت ہے يا محب وطن؟
دہشتگرد جماعتيں عموماً عسكری طاقت سے اپنے وطن اور ہم وطنوں كو اپنی دہشتگردی كا نشانہ بناتی ہیں اور پورے ملک يا ملک كے بعض حصوں پر خلاف قانون قبضہ كركے حكومت كی رٹ كو چيلنج كرتی ہیں، ليكن اگر حزب الله كو تعصب كی عينک اتار كر ديكهيں تو ديكهيں گے كہ حزب الله كی جذبہ حب الوطنی اور ايثار كا يہ مقام ہے كہ مسلسل 18 سال غاصب اسرائيل كے خلاف جنگ لڑی اور وطن عزيز كی آزادی كے لئے ہزاروں شہداء كے علاوه ديگر بهی ہر قسم كی قربانياں ديں، ليكن جب مادر وطن كو آزاد كراليا تو اسكے مستقبل كا فيصلہ تمام ہم وطن سياسی قوتوں كے اختيار ميں ديديا۔ خود اپنی حكومت يا خلافت يا ولايت قائم نہیں كی۔ حتٰى كہ وطن کے وه خائن اور مجرم افراد اور گروه جو اسرائيل كيساتھ ملكر حزب الله كے خلاف جنگ كرتے رہے، انكے ساتھ بهی حزب الله كا رويہ وہی تها، جو سركار خاتمی مرتبت حضرت محمد مصطفٰى صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ كے بعد اختيار كيا تها اور مسلسل جنگیں كرنے والے كفار سے فرمايا تها "جاؤ ہم نے تمہیں آزاد كر ديا۔"
اسى سيرت مصطفٰى (ص) پر عمل كرتے ہوئے 25 مئی 2000ء كو جب اسرائيل ان خائنوں كو چهوڑ كر بهاگ نكلا تو حزب الله كے قائد فرزند رسول علامہ مجاہد سيد حسن نصرالله نے بهی اپنے جد والے اعلان كو ہی دہرايا تها۔ ہاں حزب الله اسرائيل اور امريكہ كی نگاه ميں ايک دہشت گرد جماعت ہے، كيونکہ اس كی دہشت اور خوف سے اسرائيل، امريكہ، انكے فلک ميں گھومنے والے افراد اور حكمرانوں كی نينديں حرام ہوچكی ہیں۔ حزب الله لبنان كی ايک مضبوط سياسی پارٹی ہے، جو لبنانی قوانين كے مطابق اليكشن ميں شركت كرتی ہے، اس كا پارليمنٹ كے اندر مضبوط دھڑا ہے اور انكی پارٹی كے کئی ايک وزير بهی لبنان حكومت ميں موجود ہیں۔ حزب الله فقظ وطن كيلئے دفاعی جنگ پر ايمان ركهتی ہے اور اس نے ملک كے داخلى سياسی اختلافات ميں كبهی بهی عسكری قوت كو استعمال نہیں كيا۔
حزب الله شام حكومت كی حمايت ميں شامی عوام اور حكومت كے مابين داخلى جنگ ميں كيوں وارد ہوئی؟
شام ميں جو خانہ جنگی 2011ء ميں شروع ہوئی، تمام تر شواہد دلالت كر رہے ہیں کہ يہ جنگ شام حكومت اور شامی عوام كے مابين نہیں تهی۔ 80 سے زياده ممالک سے تكفيری جنگجو اور انكے علاوه وه كمانڈوز جن كو عراق کی ابو غريب نامی جيل، امريكہ کے بدنام زمانہ گوانتا نامو نامی ٹریننگ اور برين واشنگ سنٹر اور اسی طرح سعودی و خليجی حتى كہ ڈیره اسماعيل خان جيل سے بهاگنے والے دہشتگردوں كو بهی شام بهيجا گيا۔ شام حكومت کا قصور يہ تها:
1۔ اسرائيل سے سفارتی تعلقات قائم كرنے پر راضی نہیں تھی۔
2۔ لبنان و فلسطين كی آزادی كی تحريكوں، مقاومت و انتفاضہ كی پناہ گاه تھی، انكی ہر لحاظ سے مدد كرتی تھی اور عرب دنيا ميں قلعہ مقاومت كے نام سے معروف تھی۔
3۔ ايران كے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات تهے جنكو قطع كرنے پر راضی نہیں تھی۔
4۔ اس نے امريكی اور مغربی بلاک كا حصہ بننے سے انكار كر ديا تها۔
مقاومت كے ہراول دستہ حزب الله سے شكست كے بعد امريکہ و مغربی بلاک، اسرائيل اور خطے ميں انكے شركاء سعوديہ، قطر اور تركی كے ساتھ ملكر كر قلعہ مقاومت كو منہدم كرنے كا پروگرام بنايا گيا، تمام تكفيری مسلح گروہوں، انكا نام جبهة النصرة ہو يا داعش، فتح الاسلام ہو يا جيش الاسلام، جند الشام ہوں يا احرار الشام، انكی قدر مشترک يہ ہے كہ وہ كرائے كے قاتل ہیں، تكفيری عقيدہ ركهتے ہیں اور وحشت و بربريت ميں اپنی مثال آپ ہیں۔ انكا كام شام كی تباہی اور اسرائيل كا دفاع ہے۔ اسی لئے انكے زخميوں كا علاج اسرائيلی ہسپتالوں ميں ہوتا ہے۔ انہیں لاجسٹک خدمات اور اہم عسكری معلومات اسرائيل فراہم كرتا ہے۔
حزب الله كے شام ميں وارد ہونے كے اسباب مندرجہ ذيل ہیں:
1۔ قلعہ مقاومت شام كے خلاف حزب الله كے دشمنوں كی مسلط جنگ ميں ان کا ٹارگٹ فقط شام نہیں بلكہ حزب الله ہے، كيونكہ شامی حكومت گرنے كے بعد حزب الله كے سامنے اسرائيل اور پشت پر اسرائيلی ايجنٹ ہوتے، جو خونخواری و درندگی اور بغض و عناد ميں يہودیوں سے بهی بدتر ہیں، وه تکفیری 2011ء ميں شورش كے آغاز پر اعلان بهی كرچكے تھے "لا ايران ولا حزب الله" اب نہ ايران رہے گا اور نہ حزب الله۔ تو حزب الله نے وه جنگ جو اسے كل لبنان كے گلی كوچوں ميں تنہا لڑنا تھی، اب وہی جنگ اپنے شركاء كے ساتهـ ملكر كر لڑ رہی ہے، دوسری طرف حزب اللہ نے اپنی سرزمین كو ميدان جنگ بننے سے بهی بچا ليا۔
2۔ تكفيری وہابی گروہوں اور زہران علوش نے اپنے خطابات ميں ايک خطرناک اعلان كيا تها۔ جس ميں اس نے رسول خدا صلى الله عليہ وآلہ وسلم كی نواسی اور حضرت امام على عليہ السلام كی شہزادی ثانی زهراء حضرت زينب عليها السلام سے مخاطب ہو كر تمام مسلمانوں كی غيرت كو للکارا تها اور كہا تها"سترحلين مع النظام"كہ ای زينب اس بشار الاسد كی حكومت كے بعد تم بهی نہیں رہو گی۔" ان دہشتگرد تکفیریوں نے ديواروں پر یہ چاكنگ بهی كروائی تھی۔ حزب الله كے مجاہدین اور انكے قائد كی غيرت و حميت كيسے برداشت كرتی كہ وه زنده ہوں اور خاندان رسول خدا كی بے حرمتی ہو، تو سيد مقاومت علامہ سيد حسن نصرالله نے اعلان كر ديا کہ "دوسری بار حضرت زينب كو قيدی ہرگز نہیں ہونے دينگے۔"جب ترک حكومت نے اپنے سابق بادشاه ظاهر شاه كہ جس كی قبر شام كی سرزمين ميں ہے، اسکی حفاظت كيلئے فوجی دستے بهيجے اور شام كی سرحدوں کی خلاف ورزی كی تو یہی جواز بنايا تها کہ انكی جد كی مزار كو داعش اور ديگر مسلح تكفيری گروہوں سے خطره ہے، اس لئے تركی فوجی دستے اسكی حفاظت كيلئے شام کی زمینی حدود میں وارد ہوئے ہیں، كيونكہ يہ كچھ عرصہ پہلے اصحاب رسول خدا حضرت خواجہ اويس قرنی، حضرت عمار بن ياسر اور حصرت حجر بن عدی اور حضرت ابی بن كعب كے مزارات كو مسمار كرچکے تهے۔ ان دنوں سيد حسن نصرالله نے حزب الله كی شام ميں مداخلت پر اعتراض كرنے والوں كو جواب ديا تها کہ اگر رجب طيب اردغان اپنے جد كی قبر بچانے كيلئے فوجی دستے بهيج سكتا ہے تو دختر رسول خدا اور شريکۃ الحسين كے روضہ اقدس كے دفاع كيلئے ہمیں بهی فوجی دستے بهيجنے كا اختيار ہے۔ حق تو يہ ہے كہ دنيا بهر كے مسلمان انكے رسول كی بيٹی كے حرم كا دفاع كرنے والون كا شكریہ ادا كريں۔
3۔ حزب الله وہاں كی أئينی و دستوری اور عوام كی منتخب حكومت كی مرضی اور اتفاق سے اس ملک ميں داخل ہوئی ہے اور پھر بھی اس بر شور مچايا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی بين الاقوامی قوانين كی خلاف ورزی كرتے ہوئے ہمسايہ غريب اسلامی ملک يمن كی اينٹ سے اينٹ بجا ديں تو يہ دوسرے ممالک ميں مداخلت نہیں ہوتی، اگر ملک شام و عراق اور ليبيا كی تباہی كے لئے مسلح دہشتگردوں كی ہر قسم كی مدد كريں اور فضائی حملے كريں تو يہ مداخلت نہیں ہوتی۔
4۔ حزب الله كا اصلی دشمن اسرائيل ہے، جس نے انكے ملک كے بعض حصوں پر ابهی بهی قبضہ كر ركها ہے۔ جب اسرائيل شام كی حدود ميں كهلم كهلا حملے كرے گا، دہشتگردوں كو سپورٹ كريگا اور مقاومت كو كمزور كرنے كى كوشش كرے گا تو حزب الله بهی اپنے قومی و ملی مفادات كبلئے ہر ميدان مين اترے گی۔
5۔ شامی حكومت نے 2006ء كی 33 روزه جنگ ميں حزب الله كی ہر لحاظ سے مدد كی تھی اور وہ لبنانی و فلسطينى میں حزب الله اسے كبهى تنہا نہیں چھوڑ سكتی،يہ حزب الله كی نظرياتی تربيت اور اسلامی و اخلاقی اقدار كے خلاف ہے۔ تحرير: ڈاكٹر شفقت حسین شيرازی