الوقت- یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے کہا ہے کہ سعودی عرب، امریکا اور اسرائیل دنیا کی تمام برائیوں اور شر پسندی کی جڑ ہیں-
العالم ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سید عبدالمالک بدرالدرین الحوثی نے منگل کے روز اپنی تقریر میں کہا کہ دشمنوں کی وحشیانہ جارحیت یمن کے عوام کی بیداری کا باعث بنی ہے - ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے امریکا کے اشارے پر اور اسرائیل کی حمایت سے یمن پر حملہ کیا ہے۔ انصاراللہ کے سربراہ نے سعودی حملوں کے دوران یمنی قوم کی استقامت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی جارحیت کے مقابلے میں یمنی قوم کی استقامت کا اہم ترین ذریعہ اللہ تعالی پر توکل ہے- انہوں نے یمنی عوام کے خلاف امریکی اور اسرائیلی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم نے امریکا اور اس کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت کو بھی سمجھ لیا ہے اور اسرائیلی خطروں سے بھی آگاہ ہے- ان کا کہنا تھا کہ ہماری قوم نے ہمیشہ ملت فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور کرتی رہے گی- بدرالدین الحوثی نے کہا کہ سعودی عرب کو اس جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جس کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا وہ اسرائیل ہے- عبدالمالک نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں فلسطینی عوام کے ساتھ یمنی عوام کی یکجہتی اور ہمدلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا صیہونی حکومت خطے ميں تمام مسائل کی جڑ ہے۔ عبدالملک الحوثی نے یہ بات زور دیکر کہی کہ یمنی عوام استقامت کے راستے کو جاری رکھے گی اور اسکے علاوہ ہر راستہ زلت اور پستی کا راستہ ہوگا۔انہوں نے سعودی پالیسیوں کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ جارح حکومت اسرائیل اور امریکہ کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے اور ہم کسی کو اپنے ملک کے امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔انصاراللہ کے سربراہ نے یمنی عوام کے مظلومیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے یہ مظلومیت اظہر من الشمس ہے جو جنیوا مذاکرات میں بھی واضح اور نمایاں ہے .
انہوں نے کہا کہ آج حملوں کا جاری رہنا جارح حکومتوں کے چہرے پر بدنما داغ ہے اور جنگ بندی ایک ضروری امر ہے۔
سعودی عرب کے یمن کی دلدل میں پھنسنے اور اس ملک کے بے گناہ عوام کا قتل عام روکنے کی کوشش، اس بات کاباعث بنی کہ بحران کے تنہا راہ حل کی حیثیت سے یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات کے لئے صلاح و مشورے کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ جو چیز جنیوا میں یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات کی ضمانت فراہم کرتی ہے وہ سعودی عرب کے حملوں کا سلسلہ بند کرنے اور اپنی تقدیر کے فیصلے میں کردار ادا کرنے کی یمنی عوام کے مطالبات کا احترام ہے۔
یمن پر سعودی حملوں کے سائے میں جنیوا مذاکرات کے لئے مثبت اورروشن مستقبل کا تصور نا ممکن ہے کیونکہ کسی بھی مذاکرات کی کامیابی کا لازمہ اقوام متحدہ کے منشور پر توجہ دینا ہے۔
اقوام متحدہ کو قیام امن اور اس کے تحفظ کے لئے ایک ذمہ دار ادارے کی حیثیت سے،اپنے منشورکی بنیاد پر یمن میں جنگ بند کرانی چاہئے تاکہ اس ملک کے بچوں عورتوں اور نہتھے عوام کا قتل عام روکا جا سکے اور بحران کے حل کے لئے واضح سیاسی ماحول فراہم ہو سکے۔
یمن میں پائدار جنگ بندی اور عوام کے لئے انسان دوستانہ امداد کی ترسیل، جنیوا میں یمنی گروہوں کے مذاکرات میں مدد گار ثابت ہوگی۔ اس تناظر میں ایران کا چار نکاتی فارمولہ، یمنی گروہوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی راہ ہموار کررہا ہے۔
یمن میں جنگ بندی،عوام کے لئے انسان دوستانہ امداد، یمنی فریقوں کے درمیان مذاکرات، وسیع البنیاد قومی حکومت کی تشکیل، ایران کا چار نکاتی فارمولہ ہے اور یہ فارمولا مذاکرات کے لئے اچھا دائرہ کار ثابت ہو سکتا ہے۔