الوقت- ايسوشيٹڈ پريس نے رپورٹ دي ہے كہ سعودي عرب اور تركي نے شام ميں صدر بشار اسد كي حكومت گرانے كے لئے ايك نئي اسٹراٹيجي پر اتفاق كيا ہے۔سعودي عرب اور تركي كي نئي اسٹراٹيجي سے امريكہ كو تشويش لاحق ہوگئي ہے۔ اس رپورٹ كے مطابق امريكہ كے خوف كي دو وجوہات ہيں، پہلي وجہ يہ ہے كہ القاعدہ سے وابستہ دہشتگرد تنظيم جبھۃ النصرہ طاقتور ہوتي چلي جارہي ہے جسے سعودي عرب اور تركي مل كر بڑھاوا دے رہے ہيں اور دوسري وجہ بشار اسد كو سرنگوں كركے ان كي جگہ ايك خطرناك انتہاپسند حكومت لانا ہے۔واضح رہے تركي اور سعودي عرب صدر بشار اسد كي حكومت گراكر شام ميں ايران كے اثر ورسوخ كو ختم كركے حزب اللہ لبنان كے ساتھ بھي ايران كا رابطہ كاٹنا چاہتے ہيں۔اسي وجہ سے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لكھا ہے كہ تركي اور سعودي عرب كے معاہدے سے شام ميں ايك نئے انتہا پسند اتحاد جيش الفتح معرض وجود ميں آيا ہے۔ اس انتہا پسند اتحاد كي پہلي بڑي كاميابي مارچ كے آخري دنوں ميں شام كے اہم شہر ادلب پر قبضہ كرنا تھي۔ واشنگٹن پوسٹ كي رپورٹ كے مطابق جبھۃ النصرۃ اسي اتحاد ميں شامل ہے۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے كہ تركي اور سعودي عرب كے اتحاد كو پہلي كاميابي حاصل ہوئي ہے۔ تركي اور سعودي عرب صدر بشار اسد كے خلاف لڑنے والے دہشتگردگروہوں كي بھرپور حمايت كررہے ہيں۔ اسي سلسلے ميں امريكي نائب صدر جوبايڈن كا يہ بيان نہايت اہميت ركھتا ہے۔انہوں نے چند مہينوں قبل ہاروارڈ يونيورسٹي ميں طلباء كے سوالوں كا جواب ديتے ہوئے تركي، سعودي عرب اور متحدہ عرب امارات كا نام ليتے ہوئے كہا تھا كہ ہمارے اتحادي شام ميں ہماري سب سے بڑي مشكل ہيں۔انہوں نے كہا كہ ہمارے اتحادي بشار اسد كو سرنگوں كرنے ميں اس قدر محو تھے كہ انہوں نے سيكڑوں ملين ڈالر اور ہزاروں ٹن ہتھيار ہر اس گروہ كو دے دئے جو بشار اسد كے خلاف جنگ كرنے كا دعويدار تھا۔ امريكہ كے نائب صدر نے كہا ليكن ہم اپنے اتحاديوں كو مطمين كرنے ميں ناكام رہے كہ دہشتگردوں كي مدد بند كرديں۔ بعد ميں يہ سننے كو ملا كہ امريكي نائب صدر نے اپنے اس بيان پر معافي مانگ لي ہے ليكن جوبايڈن نے اس بات كي ترديد كي ہے كہ انہوں نے معافي مانگي ہے۔
امر واقعہ يہ ہے كہ سعودي عرب اور تركي، امريكہ پر اعتماد نہيں كرتے ہيں اور اس بے اعتمادي ميں دوہزار تيرہ كي گرميوں كے بعد سے شدت آئي ہے اور يہ وہ زمانہ تھا جب امريكہ نے بشار اسد كي حكومت سرنگون كرنے كے لئے شام پر فضائي حملے كرنے سے انكار كرديا تھا۔ اس كے بعد داعش كي غير متوقع ترقي كے بعد امريكہ نے بشار اسد كي سرنگوني كا مسئلہ اپنے ايجنڈے سے نكال ديا اور ترجيح داعش كے مقابلے كو دينے لگا۔ تركي اب تك داعش كے خلاف امريكہ كے نام نہاد عالمي اتحاد ميں شامل نہيں ہوا ہے اور نہ اپني سرحدوں پر سكيورٹي سخت كركے غير ملكي دہشتگردوں كي آمد و رفت ہي بند كرنے كو تيار ہے۔ امريكي حكام نے تركي سے بارہا يہ مطالبہ كيا ہے ليكن تركي نے امريكہ كي ايك نہيں ماني ہے۔ حاليہ مہينوں ميں شام كے تعلق سے اختلافات كي وجہ سے تركي اور امريكہ كے تعلقات ميں كشيدگي آگئي ہے۔
آل سعود كے نئے بادشاہ سليمان بن عبدالعزيز نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے ايران كے خلاف جارحانہ پاليسي اپنالي اور كھل كر ايران كے مقابل آگئے ہيں۔ انہوں نے اعلان كيا ہےكہ وہ ايران كے اثر ورسوخ كا مقابلہ كريں گے۔يمن پر جارحيت ان كي ہي نئي پاليسيوں كا حصہ ہے۔ امريكہ كو اس بات پر شديد تشويش لاحق ہے كہ يمن پر آل سعود كي جارحيت كے جاري رہنے سے دہشتگرد گروہوں منجملہ جزيرہ نمائے سعودي عرب ميں القاعدہ دہشتگرد تنظيم كو تقويب ملے گي جس كا گڑھ يمن ميں ہے۔جزيرۃ العرب كي دہشتگرد تنظيم القاعدہ نے دومرتبہ امريكي مسافر طياروں ميں بم نصب كركے اڑانے كي كوشش كي ہے جنہيں ناكام بناديا گيا ہے۔ ياد رہے سعودي عرب اور اس كے اتحاديوں كو صرف ايران كے ايٹمي پروگرام سے ہي پرابلم نہيں ہے جسے امريكہ حل كرنے كي كوشش كررہا ہے بلكہ بہت سے مبصرين كے خيال ميں سعودي عرب كي بنيادي مشكل يہ ہے كہ ايران كے ساتھ ايٹمي معاہدے كي صورت ميں ايران گوشہ نشيني سے نكل جائے گا اور اپني مالي بنيادوں كو مضبوط بنا كر اپنے اثر و رسوخ ميں زيادہ سے زيادہ اضافہ كرنے كي كوشش كرے گا۔ ان نظريے كے مطابق ايران يمن ميں جسے آل سعود اپنا بيك يارڈ سمجھتي ہے اپني پوزيشن مزيد مضبوط بناسكتا ہے،بحرين كے عوام كي بھرپور حمايت كرسكتا ہے، عراق پر مزيد تسلط جماسكتا ہے، اور شايد سب سے اہم بات يہ ہوكہ سعودي عرب ميں شيعہ مسلمانوں كي تحريك كو آگے بڑھانے اور سعودي عرب كي شہنشہاي حكومت كے لئے خطرہ پيدا كرسكتا ہے۔
اس وقت مشرق وسطي كےجو حالات ہيں كيا ان كو ديكھ كر يہ كہا جاسكتا ہے كہ امريكہ جو خود كو سپر پاور كہتا ہے اس كے ہاتھوں سے علاقے كا كنٹرول نكل گيا ہے؟ واضح رہے علاقے ميں بڑے وسيع پيمانے پر امريكہ سياسي اور فوجي لحاظ سے موجود ہے۔ اس سے قبل جن حالات كي طرف ہم نے اشارہ كيا اس مفروضے كو تقويت پہنچاتے ہيں۔ دس برسوں قبل يہ بات قابل تصور نہيں تھي كہ سعودي عرب اور تركي امريكہ كي مرضي كے خلاف پاليسياں اپنائيں گے۔ ايران اور خليج فارس كے عرب ملكوں ميں رسہ كشي، ايران اور تركي ميں ايك طرف سے اور علاقے كے عرب ملكوں ميں دوسري طرف سے پراكسي وار اور آخر كار ايران كے ايٹمي معاملے كا حتمي حل كے قريب پہنچنے سے ايسے حالات فراہم ہوئے ہيں كہ علاقائي ممالك بھي خود مختاري كا مظاہرہ كرتے ہوئے پاليسياں اپنائيں جس كے نتيجے ميں امريكہ كي چودھراہٹ ميں كمي آئي ہے۔ البتہ يہ قرآئن بھي دكھائي دے رہے ہيں كہ امريكہ ان حالات سے چنداں ناراض بھي نہيں ہے۔
حال ہي ميں نشر ہونے والي نيويارك ٹائمز كي رپورٹ كے مطابق امريكہ كئي دہائيوں سے عرب ملكوں كو پيشرفتہ ہتھيار فروخت نہيں كررہا تھاكيونكہ اس كا ھدف صيہوني حكومت كي فوجي برتري قائم ركھنا تھا۔ اس رپورٹ ميں آيا ہے كہ اب اسرائيل عملا عرب ملكوں كا حليف بن چكا ہے اور عرب ممالك اسرائيل كے ساتھ مل كر ايران كےخلاف متحدہ ہو چكے ہيں لھذا امريكي حكومت اب بڑے شوق سے عرب ملكوں كو اپنے پشرفتہ اور جديد ہتھيار فروخت كررہي ہے۔ فوجي امور كے ماہرين كا خيال ہے كہ مشرق وسطي كے بحراني حالات اور سني آبادي والے ملكوں كي جانب سے ايران كا مقابلہ كرنے كے فيصلے كے نتيجے ميں بھاري مقدارميں جديد ترين ہتھياروں كے معاملات ديكھنے كو مليں گے۔ صرف گذشتہ سال سعودي عرب نے اسي 80 ارب ڈالر ہتھياروں پر خرچ كئے ہيں۔ متحدہ عرب امارات نے تئيس ارب اور قطر نے محض آپاچي ہيلي كاپٹر خريدنے پر گيارہ ارب ڈالر خرچ كئے ہيں۔ نيويارك ٹائمز كي رپورٹ ميں آيا ہے كہ امريكہ كي انٹليجنس ايجنسياں اس بات پر يقين ركھتي ہيں كہ مشرق وسطي ميں جاري پراكسي وار كئي برسوں تك جاري رہيں گي جس سے علاقے كے ملكوں كے درميان ہتھياروں كي دوڑ بڑھ جائے گي اور يہ ممالك امريكہ كے تازہ جنگي طياروں اور ہتھياروں كو خريدنے ميں ايك دوسرے پر سبقت لےجانے لگيں گے۔