كردستان عراق اور ڈيموكريٹك الائنس كے سربراہ مسعود بارزاني نے دو مئي كو ايك وفد كے ہمراہ امريكہ كا سات دن كا دورہ شروع كيا تھا۔ يہ دورہ ايسے وقت شروع ہوا تھا جب امريكي كانگريس ميں عراق كے اھل سنت اور كردوں كو براہ راست طريقے سے يعني مركزي حكومت كي اجازت كے بغير مسلح كرنے كا بل پيش كيا گيا تھا۔ بارزاني نے حيدر العبادي كے دورہ امريكہ كے بعد واشنگٹن كا دورہ كيا ہے۔ مسعود بارزاني كي نظر ميں واشنگٹن كے دورے كے متعدد اھداف ہيں۔ ان اھداف ميں كردوں كي مستقبل كا نقشہ بنانا،واشنگٹن سے بھاري ہتھيار حاصل كرنا، بغداد كي مركزي حكومت سے تعلقات كے سلسلے ميں اس پر امريكہ سے دباؤ ڈلوانا،اور شام كے كردستان كے مسائل اہم ہيں۔ مسعود بارزاني نے دورہ واشنگٹن ميں ان اھداف كے حصول كي كوشش كي ہے۔
كردوں كے مستقبل كا فيصلہ
مسعود بارزاني نے فلاڈلفيا چينل سے بات چيت ميں كہاكہ وہ صدر باراك اوباما كے ساتھ كردوں كے مستبقل كي صورتحال، داعش كے خلاف جنگ اور علاقے كے مسائل پر گفتگو كريں گے۔ يہ ملاقات كردوں كي مستقل حكومت اور كردستان كي آزادي پر منتج ہوسكتي ہے۔ مسعود بارزاني كردستان كي آزادي كے بارے ميں واشنگٹن كے موقف سے بخوبي واقف ہيں۔ انہيں يہ بھي اچھي طرح معلوم ہے كہ كردستان كي مستقل حكومت كے سامنے سب سے بڑا چيلنج عالمي سطح پراسكا تسليم كياجانا ہے۔ عراقي كردستان كي مستقل حكومت كے تعلق سے امريكہ كا موقف متحدہ عراق اور سارے عراق پر بغداد كي مركزي حكومت كي رٹ سے عبارت رہا ہے۔دوسري طرف سے بارزاني امريكہ اور كانگريس كے الگ الگ مواقف سے بہترين طرح سے فائدہ اٹھانے كي كوشش كررہے ہيں۔ يہ بات كردوں كي آزادي اور انہيں ہتھيار فراہم كرنے كے بارے ميں وائٹ ہاوس اور كانگريس كے موقف ميں واضح ہوجاتي ہے ۔ دراصل بارزاني اپنے دورہ امريكہ ميں عراق ميں سكيورٹي بحران كے خاتمے كے بعد كردوں كي مستقل رياست كو يقيني بنانا چاہتے تھے ليكن عراقي كردوں كےبارے ميں امريكہ كے موقف سے انہيں شديد مايوسي ہوئي۔ادھر وائٹ ہاوس كے ترجمان جاش ارنسٹ نے مسعود بارزاني اور اوباما كي ملاقات كے بعد ايك بيان ميں كہا كہ " امريكہ كا نظريہ يہ ہے كہ عراق ميں متحدہ اور ہمہ گير حكومت عراقي قوم اور اس ملك كے فائدے ميں ہے۔ جاش ارنسٹ نے كہا كہ صدر باراك اوباما نے كردستان عراق اور كرد عوام كي حمايت كي ليكن اس كے ساتھ ساتھ يہ بھي كہا كہ امريكہ، عراق ميں ايك حكومت جو جمہوري ہواور فيڈرل ہو اور جو اسٹراٹيجيك معاہدے اور عراق كے آئين كے مطابق وجود ميں آئي ہے۔
امريكہ سے بھاري ہتھياروں كا حصول
جيسا كہ ہم نے بتايا مسعود بارزاني كا دورہ امريكہ، امريكي كانگريس ميں كردوں كو براہ راست مدد دينے كے بل پيش كئے جانے كے موقع پر انجام پايا۔عراقي كردوں نے جب انہيں تكفيري دہشتگرد گروہ داعش سے خطرہ محسوس ہوا تو امريكہ سے سركاري طور پر امداد اور ہتھياروں بھيجنے كي فرياد شروع كردي اور يہ كہا كہ انہيں داعش سے مقابلے كےلئے بھاري ہتھياروں كي ضرورت ہے۔ كردوں نے اس غرض سے كئي وفود امريكہ بھيجے۔ اس درخواست كے نتيجے ميں امريكہ نے بغداد حكومت كے توسط سے كردوں كو ہتھيار بھيجنے كي پاليسي اپنائي۔ ہرچند كردوں نے اس پاليسي پر اعتراض كرتے ہوئے كہا كہ بغداد حكومت كردوں كو ہتھيار فراہم كرنے ميں ليت و لعل سے كام ليتي ہے ليكن امريكہ نے يہ بات نہيں ماني۔ اس كے باوجود مسعود بارزاني نے امريكہ كے دورے ميں امريكہ سے مزيد ہتھيار بھيجنے خاص طور سے بكتر بند گاڑياں اينٹي ٹينك ميزائل لانچر فراہم كرنے كي درخواست كي۔
كردستان اور بغداد حكومت كے تعلقات ميں امريكہ كے اثر ورسوخ سے فائدہ اٹھانا۔
كردستان عراق كو داخلي اور قومي سطح پر گہرے چيلنجوں كا سامنا ہے، اس علاقے كو درپيش سب سے اہم چيلنجوں ميں داعش كے خطرے، اقتصادي بحران اور كردستان علاقے كي صدارت كے مسائل ہيں۔ اس كے پيش نظر بارزاني بخوبي جانتے ہيں كہ امريكي حكومت كردستان كے مقابل ہميشہ حكومت بغداد كي حمايت كرتا آيا ہے اور اس ضمن ميں امريكہ كے مواقف بھي واضح ہيں۔ اس دورے ميں مسعود بارزاني نے واشنگٹن سے مطالبہ كيا ہے كہ وہ بغداد پر زيادہ دباؤ ڈالے تا كہ وہ كردستان كي ضرورتيں پوري كرے۔ واضح رہے عراق ميں امريكہ كے سابق سفير زلمائے خليل زاد نے جانبداري كا مظاہرہ كرتے ہوئے كہا ہے كہ چونكہ بغداد كردستان كو بجٹ فراہم نہيں كررہا ہے لھذا يہ كردستان كا فطري حق ہےكہ وہ مستقل طور پر تيل برآمد كرے۔ بارزاني اور امريكي حكام كے بيانات سے بارزاني كے اس ھدف كي نشاندہي ہوتي ہے۔بارزاني نے اوباما سے ملاقات كرنے كے بعد صحافيوں سے گفتگو ميں كہا كہ گرچہ ان كا علاقہ اقتصادي بحران سے گذر رہا ہے ليكن دس لاكھ سے زائد مہاجرين كي ميزباني كررہا ہے۔امريكہ كے نائـب وزير خارجہ بريٹ ميك گروك نے اعلان كيا ہے كہ اوباما اور بارزاني ملاقات ميں كردستان كي اقتصادي صورتحال، داعش كے خطرے، مہاجرين كے مسئلہ نيز اربيل بغداد كے تعلقات پر تبادلہ خيال ہوا ہے۔
كردستان شام
ايك اہم موضوع جس پر مسعود بارزاني نے ممكنہ طور پر امريكي حكام كے ساتھ گفتگو كي ہے شام كے كردوں كامسئلہ ہے۔ شام كا علاقہ كردستان بارزاني اور اوجالان كے درميان رقابت كا ميدان بنا ہوا ہے۔ اوجالان كي پارٹي كا نام قومي كونسل ہے جبكہ بارزاني كي پارٹي كا نام ڈيموكريٹك الائنس ہے۔بارزاني نے اس خيال كے ساتھ كہ شام ميں بشار اسد كي حكومت سرنگوں ہوجائے گي شام كے كردوں ميں اپنا اثر ورسوخ پھيلانے كي كوشش شروع كردي ليكن يہ اقدامات كرتے ہوئے انہيں خيال نہ رہا كہ اوجالان كي پي كے كے شام كے كرد علاقوں ميں بہت پہلے سے سرگرم عمل ہے اور اس علاقے ميں سب پارٹيوں پر برتري ركھتي ہے۔ بارزاني نے سرتوڑ كوشش كي كہ جمہوي اتحاد پارٹي كو بھي پي كے كے كي طرح دہشتگرد تنظيم قرار دے ديا جائے ليكن انہيں كاميابي نہيں ہوئي۔ ياد رہے امريكہ نے پي كے كے كو دہشتگرد گروہوں كي فہرست ميں شامل كرركھا ہے۔ادھر بارزاني نے يہ بھي كوشش كي كہ شام كے كردوں اور امريكيوں ميں رابطہ نہ ہوپائے اور اگر ہو تو ان كي وساطت سے ہو۔ بارزاني نے كوباني شہر كے بحران ميں بھي اسي پاليسي پر عمل كيا تھا اور تركي كے مقابل موقف اپنا كريہ كوشش كي تھي كہ جمہوري اتحاد پارٹي كو امريكي ہتھيار نہ مل پائيں ليكن انہيں اس ميں بھي كوئي كاميابي نہ مل پائي۔ امريكي حكام نے پي كےكے سے جمہوري اتحاد پارٹي كو الگ كركے اسے دہشتگرد قرار نہيں ديا۔ اس كے بعد مسعود بارزاني نے دھوك معاہدے كے سہارے خود كو شام كے كرد علاقے كي سياست ميں شامل كرنے كي كوشش كي ليكن يہ معاہدہ بھي مختلف مسائل كا شكار ہوگيا۔ دوسري طرف سے شام ميں كردوں كي دوسري پارٹياں جمہوري اتحاد پارٹي كو اجارہ داري اور انہيں كنارے لگانے كا ذمہ دار ٹہرارہي ہيں۔ بارزاني نے اپنے دورہ واشنگٹن ميں جمہوري اتحاد پارٹي اور شام كے كردستان كےبارے ميں امريكي حكام كو نظر ثاني كرنے پر مائل كرنے كي كوشش كي ہے۔ دراصل بارزاني يہ چاہتے ہيں كہ وہ امريكہ كے سہارے شام كے كردستان ميں سياسي توازن كو اپني حمايت يافتہ پارٹي كے حق ميں موڑليں۔
مجموعي طورپر يہ كہا جاسكتا ہےكہ اگرچہ بارزاني كے دورہ واشنگٹن كے ايجنڈے كي فہرست بڑي طويل ہے ليكن ايسا لگتا ہےكہ ان ميں محض دو مسائل يعني مہاجرين اور مالي مسائل كے علاوہ امريكہ نے ديگر مسائل كو اہميت نہيں دي ہے۔اس كا اظہار عراق كي مركزي حكومت پر امريكہ كي تاكيد كرنا ہوتا ہے۔ اس مسئلے كو مد نظر ركھنا چاہيے كہ مسعود بازاني نے واشنگٹن كا دورہ كركے خاص طور سے كانگريس ميں اپنے اور اپنے علاقے كے حق ميں كافي لابينگ كي ہے جس كے نتيجے ميں ہميں اب يہ ديكھنا چاہيے كہ كيا اوباما كي حكومت كانگريس كے دباؤ ميں آكر كردستان عراق كے تعلق سے اپني پاليسياں بدلنے پرمجبور ہوتي ہے يا نہيں۔