امریکہ کے نائب صدر "جوبائیڈن" کے اہم اعترافات سامنے آۓ ہیں۔ جوبائیڈن نے ہارورڈ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا" ہمیں اس بات پر افسوس ہے کہ علاقےمیں ترکی سمیت امریکہ کے اتحادی ممالک، داعش کو داعش بنانے کے ذمےدار ہیں" جوبائیڈن نے مزید کہا کہ ترکوں، سعودیوں اور متحدہ عرب امارات والوں نے کروڑوں ڈالر کی رقم اور بھاری مقدار میں ہتھیار شام میں بشار اسد کی حکومت مخالفین کو فراہم کئے۔انھوں نے کہا کہ سعودی عرب ، اور متحدہ عرب امارات سمیت علاقے کے بعض دیگر ممالک بھی شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے شام میں شیعہ سنی تفرقہ پھیلانے کے درپے تھے۔یہ لوگ القاعدہ اور النصرہ میں شمولیت کے لئے بیرونی ملکوں سے آنے والوں کی مدد کرتے تھے اور دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونے والے انتہا پسندوں اور جنگ جوؤں کو خوش آمدید کہتے تھے۔ عراق میں برطانوی فوج کے سابق کمانڈر "جناٹن شاو" نے بھی داعش کے سلسلے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب اور قطرنے تکفیری گروہ داعش کی مالی مدد کی ہے " اسی طرح برطانوی اخبار "ڈیلی ٹیلیگراف " نے بھی اس راز کو بےنقاب کیا ہے کہ قطر عراق اور شام میں سرگرم دہشت گردوں کی مالی مدد کرتاہے۔مغرب اور اسکے اتحادیوں کی ملی بھگت سے داعش شام اور عراق میں سب سے منظم اور بڑے دہشت گرد گروہ میں تبدیل ہوچکاہے ۔ مغربی حکومتوں نے شامی عوام کی حریت پسندی کی حمایت کے بہانے ترکی،سعودی عرب،اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کے ذریعہ تکفیری دہشت گرد گروہوں اور ان میں سر فہرست داعش کی ہر طرح کی مدد وحمایت کی۔ لیکن جب ان دہشت گرد گروہوں کو شام میں اپنے مقاصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو ان گروہوں نے عراق میں اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کا دائرہ وسیع کرنا شروع کردیا۔ عراق کی مرکزی حکومت کی کمزوری نیز عراقی فوج میں صدام کے حامی بعثیوں کا نفوذ اور ان کی غداری، عراق میں داعش کی تیزی سے پیش قدمیوں کی ایک اہم وجہ شمار ہوتی تھی، لیکن داعش کے وسیع پیمانے پر دہشتگردانہ اقدامات اور ساری دنیا میں داعش کی بدنامی نےاس گروہ کی حامی حکومتوں کو مشکلات سے دوچار کردیا ۔ اس لئے کہ اب یہ حکومتیں ماضی کی طرح شامی عوام کی آزادی اور جمہوریت پسندی کی حمایت کے بہانے کھلم کھلا دہشت گرد تکفیری گروہ داعش کی مدد نہیں کرسکتی تھیں ۔ البتہ داعش جیسے دہشت گرد گروہ، امریکی اور مغربی حکومتوں کے لئے ان کے ناجائز مفادات کے حصول کا صرف ایک ہتھکنڈا ہیں لہذا ان کے استعمال کی تاریخ بھی معین ہے ۔ ایسا نظرآرہاتھا کہ عراق میں گزشتہ سال رونما ہونے والی تبدیلیوں اور داعش کی تیزی سے پیش قدمیوں سے پہلے تک اس کے استعمال کی تاریخ ابھی باقی تھی اس لئے کہ مغربی حکومتوں اور ان کے علاقائی اتحادیوں کو شام میں بحران آفرینی کے چار سال بعد بھی اپنے اہداف تک رسائی میں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ لیکن عراق میں داعش کی فوری کامیابیاں اس دہشت گرد گروہ کا کنٹرول اس کے حامیوں کے ہاتھ سے نکل جانے کا باعث بن گئیں۔ شام اور عراق میں وسیع پیمانے پر داعش کے دہشت گردانہ اقدامات کی وجہ سے داعش کی حامی مغربی حکومتوں کے خلاف رائےعامہ کی نفرت سے چشم پوشی کرنا دشوار ہوگیا تھا۔ بعض مغربی یرغمالیوں کے سر قلم کرنے اور ان کی تشہیر نے بھی اس دہشت گرد گروہ داعش کے حامیوں کو ان کی حمایت کے حوالے سے بے بس کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مغربی حکومتوں اور ان کے اتحادیوں کو علاقے میں مجبورا اپنا کردار تبدیل کرنا پڑا۔ جبتک مغربی ممالک کے باشندے، داعش کے دہشت گردانہ اقدامات سے محفوظ تھے، اس وقت تک شام اور عراق کے مظلوم عوام کے خلاف اس گروہ کے دہشت گردانہ اقدامات کی نہ صرف مذمت ہی نہیں کی جاتی تھی بلکہ ان کو شام کے عوام کی آزادی اور جمہوریت نوازی کا تاوان سمجھا جاتاتھا اور بشار اسدکا تختہ الٹنے کے لئے اس گروہ کی مکمل حمایت کی جاتی تھی؟ مغربی حکومتں کی نظر میں یہی اچھی اور بری دہشت گردی کی تقسیم بندی ہے ۔ شام میں جو کچھ ہورہاہے وہ حقیقی معنی میں دہشت گردی ہے۔ لیکن مغربی حکومتوں نے شام کے خلاف ابھی بھی اپنے رویّہ میں اصلاح نہیں کی ہے بلکہ یہ اعلان کیا ہے کہ وہ شام کی حکومت مخالف گروہوں کو جن کو وہ اعتدال پسند گروہ کہتی ہیں، کی حامی ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ مغربی حکومتوں کی جانب سے شام مخالف نام نہاد اعتدال پسند گروہوں کی تسلیحاتی مدد کے طور پر بھیجے جانے والے ہتھیار، تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے عناصر کے ہاتھوں میں دیکھے گئے ہیں۔بنابریں مغربی حکومتوں کا یہ طرز عمل اس امر کا غماز ہے کہ داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا قیام عمل میں لانے کا مقصد، اس بین الاقوامی اتحادکو، سیاسی ،تشہیراتی اور رائے عامہ کی فریب دہی کے ہتھکنڈےکے طورپر استعمال کرناہے ۔داعش کے مقابلے کے لئے عمل میں لائے جانے والے بین الاقوامی اتحاد میں سعودی عرب ، قطر،اور متحدہ عرب امارات سمیت داعش کے حامی بعض دیگر ملکوں کی شرکت نے، دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے کے حوالے سے اس اتحاد کے اہداف کو مشکوک بنا دیاہے ۔داعش کے عناصر سعودی عرب کےوہابی مفتیوں کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں اور ان کےفتووں کی بنیاد پر اپنے دہشت گردانہ اقدامات کو اسلام کے مطابق اور جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ بات مسلّم ہے کہ اگر بعض سعودی شہزادے دہشت گرد گروہ داعش کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد نہ کرتے تو یہ تکفیری گروہ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد گروہ میں تبدیل نہیں ہوسکتاتھا۔مغربی حکام کے داعش کے بارے اعترافات کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے