کے قیام اور علی عبدالله صالح کے معزول هونے کے بعد، خلیج فارس کے بعض اتحادی ممالک کی مداخلت کی وحہ سے یمن کا انقلاب اپنے هدف سےهٹ گیا اور یه انقلاب چند حکمرانوں کو تبدیل کروانے تک محدود رها.ظاهراً ، صالح کو حکومت سے هٹا دیا گیا مگر (صالحیت) یعنی اسکی حکومت و طرز حکمرانی اپنی جگه پر باقی رها. یا دوسرے لفظوں میں فکر صالح باقی رهی. جب قیام یمن کے اهداف پرنظر ڈالتے هیں تو واضح هوتا هے که انکا اولین هدف نظام کو سرکوب کرنا تھا مگر عوام اس میں کامیاب نه هو سکے. شیعیان انصارالله نے بد عنوانی،ملک کی تقسیم کو روکنے اور ملکی خودمختاری کے لئے آواز بلند کی تھی اور اس طرح دوسرے انقلاب کی رهبری کو اپنے کندھوں پر لیا اور کامیاب هوئے. شیعیان انصارالله کی قدرت/ طاقت کا اس بات سے بھی اندازه لگایا جا سکتا هے که یمن کے انٹیلی جنس کے مراکز جوکه منصور هادی کےتحت فرمان تھے ان پر کنٹورل قائم کیا دوسری طرف سعودی عرب نےاپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے هوئے یه کوشش کی که شیعیان انصارالله کی سیاسی قدرت کو ختم کردے مگر وہ شیعیان انصارالله کی سیاسی قدرت کو ختم نہ کر سکا ۔
شیعیان انصارالله نے جنہیں یمنی عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی لوگوں کو سڑکوں پر لائے جس سے حکومت شدید سیاسی دباو کا شکار هوئی .
دواهم نکات کا ذکر ضروری هے که جو اس بات کا باعث بنے کہ انصار الله حکومت کی اصلاح کے لئے کام کرے. پهلا نکتہ پہلے قیام یا انقلاب کا شکست کھانا اور دوسرا نئے حاکم کی طرف سے حکومت کے اندر بدعنوانی اور کرپشن میں اضافہ. اس لئے جب مرکزی حکومت نے برخلاف قیام اول ان کے مستحکم ارادوں اور قدرت برتر کو دیکھا تو انصارالله کو ایک سیاسی جماعت کے عنوان سے قبول کرنے پر مجبور هو گئے. پهلے وزیراعظم کا استعفی دینا اور دوسرے کا انصارالله کے ساتھ موافقت نامه پر دستخط کرنا اس بات کا منه بولتا ثبوت هے . اس کے ساتھ ساتھ یمن کی حکومت اس بات کو بھی مدنظر رکھے که یمن کے جدید سیاسی حالات، پهلے حالات کی نسبت بهت فرق کرتے هیں. شرایط جدید اس بات کے متقاضی هیں که شیعیان انصارالله جوکه ملت یمن بالخصوص شیعیان یمن کی نمائنده جماعت هے کے سیاسی مطالبات کو پورا کیا جائے جوکه ماضی میں غفلت کا شکار رهے. اور اگر ان مطالبات کو تسلیم اور حکومت کی اصلاح کے لئے قدم اٹھایا گیا تو ملت یمن کی موجوده صورت حال اور آئنده کے لئے مفید ثابت هوگا اور ان آخری دنوں کے مظاهرے بھی اس بات کا ثبوت هیں که ان میں شرکت کرنے والے ایسے بھی افراد تھے که جن کا شیعیان انصارالله کی تحریک سے کوئی تعلق نهیں تھا. مگر ان لوگوں کے منافع اور خواهشات انصار الله کے ساتھ یکسان تھے لهذا انصارالله کو یه بات بھی مدنظر رکھنی چاهیے که اگر وه چاهتے هیں که یمن میں اور یمن سے باهر بھی انکی سیاسی قدرت قائم رھے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر وه چاهتے هیں که شمالی یمن تک اپنے اثرو نفوز کو پیدا کریں تو جو روکاوٹیں اور بندشیں اس کی راه میں حائل هیں ان کو مدنظر رکھیں تاکه حزب الله کی طرح یمن میں ایک موثر سیاسی قدرت کے طور پر فعالیت کر سکیں.