تکفیری دہشتگرد گروہ داعش گذشتہ برس کے وسط میں کس طرح سے تیزی سے پیش قدمی کرتا گيا اور اس نے اپنی وحشیانہ کارروائيوں سے کس طرح رعب و وحشت پھیلادی۔ داعش کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں عالمی اتحاد میں مغربی حکومتوں کی شرکت کی وجوہات کیا ہیں اب یہ باتیں آہستہ آہستہ عام افراد تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ تکفیری دہشتگرد گروہ جیسے داعش اور القاعدہ مکتب وہابیت کے پروردہ ہیں۔ یہ مکتب فکر سعودی عرب میں آل سعود کا مذہب ہے اور اسی مکتب فکر کی بنیاد پر وہ اپنے فیصلہ کرتی ہے۔ آل سعود اور وہابیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ، سعودی عرب اور ترکی کے گٹھ جوڑ کے تحت مغربی اور بعض عرب حکومتوں نے شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی غرض سے ایک اتحاد قائم کیا تھا۔ داعش اسی مذموم اتحاد کا ناجائز نتیجہ ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کی ہمہ گير حمایتوں سے یہ تکفیری دہشتگرد گروہ عراق میں معرض وجود میں آیا تا کہ مغربی اور عرب ملکوں کے اتحاد کے اھداف ومقاصد کے تحت اس کا دائرہ عمل شام میں بھی پھیلا دیا جائے۔ مغربی اور عرب ملکوں کے اھداف شام کی حکومت کے خاتمے سے عبارت ہیں۔ترکی اور سعودی عرب نے دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کا دعوی کرنے والی مغربی حکومتوں کے اھداف کےتحت شام میں سرگرم عمل تکفیری اور دہشتگردانہ گروہوں کی بھرپور مدد کی اور کررہے ہیں۔ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے آقاوؤں کی پالیسی یہ ہے کہ اس گروہ کے ہاتھوں نہایت ہی گھناونے جرائم کا ارتکاب کراکر رعب و وحشت پھیلادیں اور عراق و شام میں زیادہ سے زیادہ علاقوں پر اس کا قبضہ کروادیں ۔ اس پالیسی سے اھل عالم بالخصوص مشرق وسطی میں تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی حقیقت کھل کر سامنے آگئي۔ یاد رہے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے لئے اس بات کا امکان نہیں تھا کہ وہ شام میں عوام کی حریت پسندانہ تحریک کی حمایت کے بہانے تکفیری دہشتگرد گروہوں کی اعلانیہ حمایت کرتے۔ اسی وجہ سے داعش کے تعلق سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے کردار میں تبدیل لانا ناگزیر ہوگیا۔ امریکہ کے رول میں تبدیلی آنے سے اس کے اتحادیوں نے بھی بظاہراس کی پیروی کی لیکن ترکی نے اپنی پالیسیوں کی تبدیلی لانے اور داعش کے خلاف نام نہاد اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ یاد رہے کہ ترکی شام و عراق میں سرگرم عمل تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے لئے مالی ذرایع کی فراہمی ، اسلحہ جاتی مدد، اور دنیا بھر سے اس دہشتگرد گروہ میں شامل ہونے والے فریب خوردہ افراد کو شام عراق میں داخل کرنے کا بنیادی ذریعہ رہا ہے
ممکن ہے بعض اذہان میں یہ سوال اٹھے کہ امریکی اتحاد نے تو داعش کے خلاف کئی بار بمباری کی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ داعش کا ساتھ دے رہا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک داعش اور دیگر تکفیری دہشتگرد گروہ ترکی اور سعودی عرب کی نیابت میں لڑ رہے تھے تو یہ ممالک سوچ رہے تھے کہ وہ اس طرح کم پیسہ خرچ کرکے علاقے میں ا پنے اھداف حاصل کرلیں گے لیکن تکفیری دہشتگردوں کے مقابل عوامی مزاحمت نے شام وعراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے منصوبوں پر پانی پھیر دیااور انہیں ناکام بنادیا۔ امریکہ اور کے پٹھووں کے تکفیری ایجنٹوں کی ناکامی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے براہ راست میدان میں اترنے کی سازش رچی اور دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کے بہانے شام کے عوام کی حریت پسندی کی نہیں بلکہ علاقے میں اپنی فوجی موجودگي کا جواز پیش کرنے کےلئے داعش پرحملوں کا ڈرامہ شروع کیا ہے۔ ارجنٹائن کی صدر کریسٹینا فرنانڈیز نے ستمبر دوہزار چودہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس سے خطاب میں بخوبی مغرب کی ان فریبی دوغلی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی تھی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہاتھا کہ ہم لوگ ایک سال قبل بھی یہاں جمع ہوئے تھے اور آپ نے دعوی کیا تھا کہ شام کے صدر بشار اسد کی حکومت ایک ڈکٹیٹر حکومت ہے اور اس موقع پر آپ نے مخالفوں کی مدد کی اور ان کی حمایت کی۔ آپ نے ان مخالفوں کی حمایت کی تھی جن کے بارے آپ کا دعویدار تھے کہ وہ انقلابی ہیں۔ لیکن آج کیا ہوگيا ہے کہ آج ہم پھر ایک مرتبہ جمع ہوئے ہیں لیکن اس مرتبہ ہم جمع ہوئے ہيں تا کہ ان انقلابیوں کا سرکچل دیں جن کی دوبرسوں قبل حمایت کی تھی، اس سال ہمیں یقین ہوگيا ہے کہ انقلابی دہشتگرد ہیں لھذا اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ بہت سے وہ گروہ جو کل تک انقلابی کہے جاتے تھے دراصل دہشت گرد ہيں۔ وہ انتھا پسند گروہوں سے نہایت ہی انتھا پسند گروہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ارجنٹائن کی صدر نے یہ سوال اٹھایا تھاکہ داعش اور القاعدہ ہتھیار کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ کل کے حریت پسند آج کے دہشتگرد ہیں۔ ارجٹائين کی صدر کی ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہےکہ آج کی دنیا میں ایسی سیاسی شخصیتیں بھی ہیں جو سچائي اور نیک نیتی سے عالمی اداروں کے ٹریبیون سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی مذموم سازشوں پر سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ لیکن مغربی ذرایع ابلاغ میں ایسی سیاسی شخصیتوں کا نیوز بائيکاٹ کردیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شام اورعراق کی حکومتوں کو فوجی لحاط سے مشورے دے کر نیز اسی طرح عراق و شام کے عوام کی پائداری نے تکفیری دہشتگردوں کے بڑھتے قدم روک دئے ہیں اور انہيں پسپائي پر مجبور کردیا ہے۔ اگر شام وعراق کے عوام کی پائداری و استقامت نہ ہوتی تو ان ملکوں کی صورتحال ہی کچھ اور ہوتی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بارے میں اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ عراق اور شام میں اپنی غلطیوں کا تدارک کرنا چاہتے تھے اور داعش کا مقابلہ کرنے میں نیک نیتی کے حامل تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ داعش کے خلاف اپنے اتحاد میں اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کو شریک ہونے کی دعوت دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا، کیونکہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا مقصد داعش کا مقابلہ کرنا نہیں ہے۔ کیا آپ داعش مخالف اتحاد میں سعودی عرب کی شمولیت پر یقین کرسکتے ہیں؟ داعش کا مذہب وہی ہے جسے وہابیت کہا جاتا ہے، داعش میں ہزاروں سعودی شہری شامل ہیں، اور آل سعود کی حکومت مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کو لاگو کرنے والی حکومت ہے۔آج یمن میں سعودی اقدامات سے القاعدہ کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور اس پر القاعدہ کے بظاہر مخالف امریکہ اور اس کے عرب حواری خوشیاں منا رہے ہیں کیایہ کھلا تضاد نہیں۔