الوقت - امریکہ میں نسل پرستی کا ماضی اس ملک کی تشکیل اور یورپیوں کی اس ملک میں آنے کی تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔برطانیہ ،فرانس اور اسپین سے تعلق رکھنے والے سفید فاموں نے پہلی بار نسل پرستی اور امریکہ کے اصلی باشندوں کو جانوروں کے برابر قرار دینے کا نظریہ پیش کیا ۔مہاجرین مقامی باشندوں کو متمدن کرنا اپنا فریضہ گردانتے تھے اور اسطرح امریکہ میں پہلی بار نسل پرستی کا بیج بویا گیا اور یہ وہ حقیقت ہے جسے امریکہ کی نئی نسل سے چھپایا جاتا ہے ۔امریکہ کے معروف مورخ اور جنگ مخالف دانشور ہاورڈزن اپنی کتاب امریکی خواب یعنی "نئی نسل کے لئے امریکی تاریخ میں" امریکہ میں مقامی باشندوں اور سرخ فاموں کے قتل عام اور ان سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے بار ے مین لکھتے ہین ۔امریکہ کے پرائمری سے لیکر ہائی اسکول تک کے تعلیمی نصاب مین اس بات کا کوئی زکر نہیں ملتا کہ کولمبس کا اس نئی دنیا میں آنا ہسپانیہ کے مقامی باشندوں کے قتل عام کے مترادف تھا۔تما م امریکی طلبا کو بوسٹن کے قتل کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے جو برطانیہ کے تخت و تاج سے امریکی آذادی و خودمختاری کے کچھ عرصہ پہلے پیش آیا تھا ۔سب کو اس بات کا علم ہے کہ 1770 میں برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں پانچ امریکی مارے گئے تھے لیکن اسکول کے شاید چند طلبا کو اس بات کا پتہ ہوکہ امریکہ کی تشکیل کے وقت سینکڑوں سرخ فام خاندان مارے گئے تھے۔
امریکہ میں نسل پرستی کا آغاز کچھ اسطرح ہوا تھا لیکن یہ سرخ فاموں اور مقامی باشندوں تک محدود نہ رہا ۔جس وقت یورپی سامراج نے براعظم امریکہ پر قبضے کا سلسلہ شروع کیا اس وقت غلاموں کو کھیتی باڑی اور نئی معدنی کانوں کی کھدائی کے لئے افریقہ سے امریکہ لے جایا جاتا تھا ۔بردہ فروشی کا کاروبار کرنے والے تاجروں نے 1500 سے 1800 عیسوی تک کے عرصے میں پندرہ میلین سے زیادہ سیاہ فام افریقیوں کو امریکہ منتقل کیا ۔امریکہ کی مکمل آذادی اور ایک باقاعدہ ملک کی تشکیل کے بعد بھی اس علاقے سے نسل پرستی کا مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ وہ ایک نئی صورت میں جاری رہا۔جنوبی امریکہ میں زراعت کے لئے لئے سازگار ماحول ہونے کی وجہ سے اس علاقے کے سرمایہ دار طبقوں نے اپنے اقتصادی فوائد کے لئے نسل پرستی اور غلامانہ نظام کو جاری رکھا دوسری طرف شمالی امریکہ چونکہ صنعت و تجارت کا مرکز تھا لہذا انہوں نے بردہ داری کے نظام کے خاتمے کا مطالبہ کردیااور یہی بات شمالی اور جنوبی امریکہ میں اختلاف اور جنگ کا باعث بنی۔یہ جنگ لاکھوں غلاموں کی آذادی اور امریکی معاشرے میں بردہ داری کے نظام کے خاتمے پر منتج ہوئی۔۔
1865 میں امریکی آئین میں تیرھویں ترمیم کے نتیجے میں بردہ داری کے نظام کا خاتمہ کردیا گیا لیکن اس ترمیم کے باوجود امریکی معاشرے سے نسل پرستی کا خاتمہ نہ ہوسکا۔امریکہ میں سیاہ فاموں کی ایک بڑی تعداد غربت و افلاس میں زندگی گزارتی تھی اور ان کے بچوں کو سفید فاموں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ تھی۔سیاہ فام بہت سے شہری حقوق سے محروم تھے یہاں تک کہ انہیں مالکیتی کی حقوق کے حوالے بھی بعض مشکلات کا سامنا تھا اسی طرح انہیں اہم سیاسی عہددوں پر فائز ہونے کا بھی حق حاصل نہ تھا۔دوسری عالمی جنگ میں سیاہ فاموں نے جب اتحادی افواج کے خلاف جنگ میں شرکت کی تو ان کے دلوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی کہ اب انہیں سفید فاموں کے برابر حقوق مل جائیں گے لیکن یہ امید بھی سراب ثابت ہوئی ۔وہ ریاستیں جہاں نسلی امتیاز کے خلاف مذاحمت تھی اور ماضی میں بردہ داری کا نظام بھی موجود تھا وہاں یہ سلسلہ ایک اور طریقے سے جاری رہا۔سیاہ فاموں پر سفید فاموں کے ہوٹلوں اور کلبوں میں داخلے پر بدستور پابندی رہی حتی جنوبی امریکہ کے بعض علاقوں مین سیاہ فاموں کو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفید فاموں کے لئے مخصوص سیٹوں پر بیٹھنے کی اجازت نہ تھی ۔ایک سیاہ فام خاتون" روا پارکس" کو ایک سفید فام کے لئے کرسی خالی نہ کرنے کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا ۔اس واقعے نے مارتھن لوتھر کنگ کو شدید متاثر کیا اور اس واقعے کو سامنے رکھ کر انہوں نے سیاہ فاموں کے حقوق کے لئے تحریک شروع کی جو 1942 سے 1968 تک جاری رہی ۔لوتھر کینگ کی تحریک کامیاب رہی اور اس تحریک کی وجہ سے سیاہ فاموں کو کئی قانونی جقوق ملے لیکن امریکی معاشرے میں سیاہ فاموں کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک بدستور جاری رہا ۔سیاہ فاموں کے ایک رہنما مالم ایکس جو شہری حقوق کے لئے سرگرم عمل تھے انہیں 1965 میں قتل کردیا گیا۔مارتھین لوتھر بھی 1968 میں قتل کردئے گئے تاہم انہیں انسان دوستی پر مبنی خدمات کی بنیاد پر امن کا نوبل انعام دیا گیا۔
سیاہ فاموں کی آذادی کی تحریکوں کے نتیجے میں بالآخر 1964 میں شہری قوانین میں اقلیتون کے خلاف نسلی امتیاز کے خاتمے کا قانوں منظور ہوا تاہم ٹھوس ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ انسانی کرامت اور انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوں کے باوجود اب بھی ان ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں پر نسل پرستی اور امتیازی رویے بدستور موجود ہین۔ییل یونیورسٹی کے سوکس کے پروفیسر ڈاکٹر جو ارنیگشن نے خبر رسان ادارے ارنا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ کی مختلف ریاستوں بالخصوص مرکزی اور جنوبی؛ ریاستوں میں اب بھی نسل پرستی کا سلسلہ پہلے کی طرح جاری و ساری ہے اور اسکی جڑیں امریکی معاشرے مین اتنی گہری ہیں کہ اس کے مکمل خاتمے کے لئے کافی وقت درکار ہے ۔امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی پامالی کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے اس حوالے سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کا حوالہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔اس رپورٹ میں امریکہ کے سیاہ فام شہریوں کے مکمل حق رائے دہی کے حوالے سے سوال اٹھایا گیا ہے ۔بوسٹن ریویو نامی اس رپورٹ میں آیا ہے کہ امریکہ میں بیس لاکھ افریقی نژاد امریکی شہری حق رائے دہی کے حوالے سے دشواریوں کا شکار ہین ۔سیاہ فاموں کو ملازمتوں کے حوالے سے بھی مختلف پابندیوں کا سامنا ہے اور بھرتی کے وقت سیاہ فامون کے ساتھ امتیازی رویہ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے ۔سیاہ فاموں مین بے روزگاری کی شرح چودہ اعشاریہ چار ہے اور اس وقت امریکہ کے مختلف محکموں میں نسل پرستی اور اپارتھائیڈ کی تحریک دوبارہ سر اٹھا رہی ہے ۔اعداد و شمار کے مطابق اٹھاون مختلف شعبوں مین سے انیس شعبوں میں ملازمت کے حوالے سے سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے درمیان فرق اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ملازمتوں مین نسلی امتیاز کی وجہ سے سیاہ فاموں کی اوسط روزانہ آمدنی سفید فاموں سے کافی کم ہے ۔امریکہ کے اعداد و شمار کے ادارے کے مطابق 2011 میں امریکہ کے سیاہ فام خاندان کی متوسط آمدنی 32 ہزار 229 ڈالر تھی جبکہ یہ آمدن سفید فام غیر ہسپانوی امریکی شہریوں سے ساٹھ فیصد کم ہے ۔
نسل پرستی کی یہ برائی امریکہ کے تعلیمی نظام تک رسوخ کرچکی ہے امریکہ کے اعداد وشمار کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 33 فیصد سفید فام اعلی تعلیم یافتہ ہیں جبکہ سیاہ فاموں کی تعداد بیس فیصد سے بھی کم ہے ۔تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ امریکہ کے سلامتی کے ادارون بالخصوص پولیس مین نسلی امتیاز کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔جولائی 2012 میں روئیٹر کی ویب سائیٹ پر جو تجزیہ کیا گیا تھا اس کے مطابق امریکی پولیس سفید فاموں کے ساتھ نرم رویہ رکھتی ہے جبکہ دوسری نسلوں کے افراد کے ساتھ سخت رویہ رکھا جاتا ہے مثال کے طور پر امریکی پولیس کے سرکاری زرائع کے مطابق امریکہ میں سالانہ دس لاکھ افراد بالخصوص سرخ فام شہریون کو بغیر کسی وجہ سے تفتیش اور تلاشی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ان میں سے بعض کو تھانے بھی لے جایا جاتا ہے اور بغیر کسی الزام کہ انہیں تھانے میں رکھا جاتا ہے اور بعد میں معمولی معذرت کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ڈیتن daytonیونورسٹی کے پروفیسر ورنیلا رینڈل کا کہنا ہے کہ 2014 کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کی پولیس اور عدالتیں سیاہ فاموں کے خلاف متحد ہین ۔ان کا کہنا ہے امریکہ میں نسل پرستی کی ایک بڑی وجہ امریکی پولیس کا سیاہ فاموں کے خلاف غیرذمہ دارانہ رویہ اور تشدد ہے ۔پولیس سیاہ فاموں کے قتل اور انکے خلاف ہونے والے تشد کے حوالے سے محتاط نہیں ہے اسی طرح سیاہ فاموں کو تشدد یا ظلم کا نشانہ بنانے والون کو کسی قسم کی سزا نہین دی جاتی۔امریکہ کے غیر سرکاری اور عوامی حلقوں کی طرف سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق 2014 مین ایک ہزار تیس سیاہ فام امریکی پولیس کے تشد د کا نشانہ بنے ۔2014 ہی میں ریاست میسوری میں سلامتی کے اداروں اور عدالتی امتیاز کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی جو نیو یارک جاکر ختم ہوئی۔2014 میں دو سیاہ فاموں مائیکل برائون اوراریگ گارنر کے قتل کے ردعمل میں امریکہ کی مختلف ریاستوں منجملہ میسوری،کیلییفورنیا اور واشنگٹن میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔بعض شہروں میں پولیس نے ان مظاہروں کو سختی سے دبانے کی کوشش بھی کی اور آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا بے دریغ استعمال کیا ۔پولیس اور نیشنل گارڈ نے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرکے جیل بھی بھیج دیا۔امریکی پولیس کے اس متشدد اور سخت رویے پر عالمی اداروں اور عالمی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی آواز اٹھائی اور امریکہ کی وفاقی اور ریاستی حکام کو مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات انجام دینے پر خبر دار بھی کیا۔2014 مین امریکی پولیس کا سیاہ فاموں کے خلاف ایسا رویہ تھا کہ امریکہ کے سیاہ فام صدر باراک اوباما بھی امریکہ میں نسل پرستی کی موجودگی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگے ان کا کہنا ہے امریکہ میں ایک بھی سیاہ فام ایسا نہیں جس کو اس ملک میں ایک مجر م کے طور پر نہ دیکھا جاتا ہو۔