ہندوستان اور افغانستان کے دیرینہ روابط باہمی دوستی کی بنیاد پر استوار ہیں ۔ ہندوستان افغانستان کے مسائل کے بارے مثبت راہ عمل اختیار کرنے کی بنا پر افغانی عوام میں مقبول ہے ۔ پچھلے 13 سالوں میں ہندوستان نے افغانستان میں عوامی نظام کے استوار کرنےا ور آزادی کو عام کرنے کی حمایت کی ہے اور اسی طرح 2/5 بلین ڈالر مالی مدد بھی کی ہے ۔ اسی طرح تعلیم و سماجیات کے میدان میں ایک قابل ذکر کردار ادا کیا ہے ۔
اھداف سفر :
افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی اپنے اعلی سطحی وفد کے ہمراہ نئی دلی پہنچے اور ہندوستان کے وزیر اعظم سے ملاقات اور تبادلہ ءخیال کیا ۔اس سفر کا مقصد ھندوستان اور افغانستان کے روابط کی تجدید اور اسلام آباد اور کابل کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط سے متعلق نئی دلی کی پریشانی دور کرنا تھا ۔
افغانستان میں امن کا قیام ہندوستان کے لئے تین اہم نتائج کا سبب ہو گا ، انتظامی نتیجہ جس کی اساس انتہا پسند اور امن و امان کے لئے خطرہ بننے والے گروہوں کا خاتمہ؛
اقتصادی نتیجہ جس کی بنیاد ہندوستان اور وسط ایشیا کے تجارتی روابط کا فروغ ہےاور سیاسی نتیجہ جس کی بنیاد جمہوریت کا استحکام اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کرنا ہے ۔
بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں پچھلے تیرہ سال میں دہلی ، کابل کی نزدیکی اور دوستانہ تعلقات افغانستان میں بدامنی کے تسلسل کا باعث رہے ہیں ۔وہ رابطہ جس نے پاکستانیوں کو شدید حساسیت کا شکار کیا ۔ قومی وحدت کی حکومت پاکستان اور ہندوستان کیساتھ معاملات میں اس تجربے پر عمل پیرا ہے کہ "سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے " ۔۔۔ گوہر بھی حاصل ہو اور دوست کی دلآزاری بھی نہ ہو" ۔۔
نتائج:
قومی وحدت کی حکومت کے اہم افراد کا پاکستان کا سفر اور ان دونوں ممالک کے اہم افراد کی آمد و رفت اور کابل اسلام آباد کے روابط میں مثبت تبدیلیاں ، اس حد تک تو ہندوستان بھی توقع کررہا تھا اگرچہ صدر مملکت کے دورہ سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے چیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ کا دہلی کا سفر ہندوستانیوں کی دلجوئی کا باعث ہوا ۔
لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ اسلام آباد کابل کے تعلقات قطعا" شفاف اور مخلصانہ نہیں ہیں ۔ یہی نظر آتا ہے کہ پہلے دن کی راکھ نیچے دبی ہوئی ہے ۔ مختلف علاقوں میں بدامنی ، خطے کے مختلف ممالک میں داعش کا ظہور ، امن کا مبہم ہونا جس کے بارے میں طے تھا کہ پاکستان کے تعاون سے کوشش کا آغاز ہو گا ، خلاف توقع پیغامات ، شمالی افغانستان مین پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان کے شدید حملے ، یہ وہ موارد ہیں جو اشرف غنی کے ہندوستان کے سفر میں تاخیر کا موجب ٹھہرے ، البتہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی اور مودی کا وزیر اعظم ہو جانے نے امید پیدا کی ہے کہ کابل اور دہلی کے روابط پہلے سے زیادہ قوی اور وسیع ہو جائیں ۔ اسلئے کہ مذکورہ پارٹی روایتی طور پر پاکستان سے خصوصی بغض رکھتی ہے ۔
اسی لئے یہ تصور کیا جاتا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت ناصرف افغانستان کی کمک جاری رکھے گی بلکہ سماجی اور انتظامی مدد میں بھی اضافہ کرے گی ۔نریندر مودی کی حکومت کے فراہم کردہ مواقع وحدت اسلامی کی حکومت کے دلی سے روابط کی تجدید اور گہرائی کی فرصت کو لازم بنا دیں گے ۔ اسی ضمن میں پاکستان نے بھی پیغام بھیجا ہے ۔
اسی طرح کے موارد میں سے ایک جسے انڈین آفیشلز نے اس سفر مین بیان کیا ہے ۔ وہ ترکی کا افغانستان کے معاملات میں فعال ہونا ہے ۔ فی الواقع افغانستان میں دو اقوام ، ازبک اور ہزارہ پر ترکی کے موثرہونے نے ہندوستان کو شددید پریشان کر رکھا ہے ۔ ڈپلومسی کے لحاظ سے دونوں متحارب ممالک کا ثالث اس ملک کو بنانا چاہئیے جو اسلامی شناخت کا حامل اور طرفین کے لئے قابل قبول ہو ۔ اور یہ ترکی کے پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات میں ترکی کے زندہ اثر کی نشاندہی ہے ۔
پاکستان کا ترکی میں طالبان کے کے لئے سیاسی دفتر کے قیام کا حامی ہونا دیگر ممالک سے قابل ترجیح ہے ۔ جبکہ مغرب قطر اور سعودی عرب کی جانب مایل ہے ، جبکہ یہی موضوع پاکستان کے کردار کو واضح کرتا ہے ۔
خلاصہ :
بعض افغانی عوام اس خیال کے حآمی ہیں کہ پاکستان نے روسی حملے کے دوران افغان مہاجرین کو پناہ دی اور مجاہدین کی تربیت اور انہیں اس طرح مسلح کیا کہ ایک سپر پاور کو شکست سے دوچار کیا اور مجاہدین کو قوت فراہم کی ۔ البتہ بعض دیگر عوام کا کہنا ہے کہ افغانستان 1979 کے بعد پاکستانی ایجنسی (آئی ایس آئی ) کا ہدف قرار پایا اور افغانستان کی جنگ طالبان کے توسط سے اور پاکستان کے تعاون سے برپا ہوئی ۔ افغانستان کی پاکستان کے ساتھ وسیع سرحد ہے اور افغانستان کی پاکستان کے ساتھ وابستگی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔ جسے وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہئیے ۔ البتہ پاکستان کا افغانستان کی مؤثر شخصیات مین حتیٰ کہ حکومت کے بالائی حلقوں مین نفوذ عقیدتی اورثقافتی اعتبار سے ناقابل انکار ہے ۔ جبکہ مقابلے میں ہندوستان کی کوشش یہ ہے کہ سیاسی اور امن و امان سے متعلق اداروں میں اثر قائم کرے ۔ مالی اور سماجی خدمات کے علاوہ تعلیمی وظائف کا اجراء ، افغان نوجوانوں کو اپنی جانب مایل کرنا اور انہیں پاکستان مخالف بنانا ۔ سوشیالوجی کے لحاظ سے اکثر افغانی عوام ہندوستانیوں کے مختلف سطح پر موجود ہونے کی مخالفت نہیں کرتے ، لیکن اس کے برعکس ایک پاکستانی کا وجود ان کے لئے ناقابل تحمل اور سوال انگیز ہوتا ہے ۔
یقینا" کابل اور دہلی ایکدوسرے کی ضرورت کے پیش نظر دوستانہ تعلقات کے جاری رہنے کے اچھے مواقع اور صلاحیت کے حامل ہیں ، ہندوستان ، افغانستان کے ساتھ روابط اور مناسبتوں کی سطح کو بڑھانے کے ذریعے پاکستان کو بہتر کنٹرول کر سکتا ہے ، اور اس طرح گرم پانیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔ افغانستان بھی ہندوستان کی مالی ، فنی اور سیاسی حمایت کے ضمن میں بین الاقوامی طور پہ فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے ۔ تاکہ پاکستان پر دباؤ سے درست طور پہ فائدہ اٹھائے ۔
احمد مرجانی نژاد