الوقت - اس قسم کی جھڑپیں جو صیہونی حکومت کے مقبوضہ علاقوں میں ہوتی تھیں 1990میں دو بار شدید جھڑپوں کے بعد فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف ایک جیسا ردعمل دکھانے سے گریز کرنے کی پالیسی کو مد نظر رکھا لیکن 2006میں ناگہانی طور پر شروع ہونے والی 34 روزہ جنگ کے بعد اس پالیسی پر عمل نہیں ہوا تاہم اس کے بعد کئی عرصے تک جنوبی لبنان کی سرحدوں پر اس قسم کی جھڑپیں نہیں ہوئیں۔اس لئےکہ فریقین نے ممکنہ طور پر یہ سمجھ لیا تھا کہ ممکن ہے کہ اس کے بعد اگر جنگ چھڑتی ہے تو وہ وسیع اور شدید ہوگی اس لئے انہوں نے کشیدگی سے اجتناب کیا اور ساتھ ہی ساتھ اگلے مرحلے کی جنگ کیلئۓ تیاریاں شروع کیں۔
شام میں بحران کے شروع ہونے کے بعد اسرائیل نے اس اعلان کے ساتھ کہ حزب اللہ کو جدید قسم کے ہتھیاروں کی ترسیل کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس کیلئے اس نے نئی حکمت عملی کے تحت کئی بار شام پر حملہ کیا اور ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس قسم کے حملوں کا مقصد جدید ترین ہتھیاروں کو ھدف بنانا تھا کہ جو یا تو لبنان کیلئے بھجوائے جارہے تھے یا پھر بھجوانے کا پروگرام تھا۔ تاہم فریقین میں سے کسی نے بھی اس کی تائید نہیں کی اس لئے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ 2006 کی جنگ بندی کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن شام کا بحران شدت اختیار کر جانے اور شام میں حزب اللہ کی موجودگی کے بعد اسرائیل نے کوشش کی کہ اپنے من پسند مطالبوں کو حزب اللہ پر مسلط کرے اور 24 فروری 2006 کے بعد پہلی مرتبہ اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کی ایک فوجی چھاونی کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کے تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ شام کی جنگ میں حزب اللہ کی بھر پور شرکت اور حزب اللہ کوشمالی لبنان میں تکفیری دھشتگر گروہوں سے در پیش چیلنجوں کی وجہ سے حزب اللہ نے اسرائیل کا جواب دینے سے اجتناب کیا۔ حزب اللہ نے شروع میں تو اس حملے کو مسترد کیا لیکن اس کے بعد دشمن کے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے حملوں کا بھر پور طریقے سے جواب دیا جائے گا۔ اور اس دھمکی کے تقریبا چار ہفتوں بعد حزب اللہ نےاسرائیل کی گشتی پارٹی پر حملہ کیا گیا جس میں چار اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے۔ اور اس طرح 2006 میں جنگ بندی کے بعد اس علاقے میں رونما ہونے والا یہ پہلا واقعہ تھا۔حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کو یہ بتا دیا جائے کہ اگر اس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تو اس قسم کے حملوں کا اسے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اوراسرائیل کی جارحیت کا دندان شکن جواب دیا جائے گا۔