الوقت - لبنان ایک ایسا ملک ہے کہ جو ناگفتہ بہ اندرونی صورتحال سے دوچار ہے۔ خاص طور سے اس لئے بھی کہ اس ملک میں غیر ملکی مداخلت بھی اپنے عروج پر ہے۔ لبنان کو اس وقت جس اہم مسئلے کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے وہ ملک کے صدر کا چناو ہے ۔ اس لئے کہ صدر کی کرسی گذشتہ 25 مہینوں سے خالی پڑی ہے اور اسی صدارت کی خالی کرسی پر کسی کو براجمان کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے مابین پائے جانے والے اختلافات کی وجہ سے حکومت کی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ لبنان میں صدارتی خلا کو پر کرنے کیلئے فرانس نے کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں ڈی میٹسورا سے اس بحران کے حل کیلئے ملاقات کا پروگرام بنایا گیا لیکن تاحال اس قسم کے اقدامات کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہواہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس بحران کے حل کیلئے ملکی اور غیر ملکی سطح پر کوئی خاص کوششیں نہیں کی گئیں۔ جبکہ مارونی عیسائیوں نے پارلیمنٹ کے اراکین سے بارہا اس بات کی اپیل کی کہ فوری طور پر صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔ لیکن بعض اراکین پارلیمنٹ کی جانب سےاسمبلی کے اجلاس میں عدم شرکت کی وجہ سے صدر کے انتخاب کا مسئلہ اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اور اس بحران کے طویل ہونے اور علاقائی اور عالمی سطح کی صورتحال کے لبنان کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے لبنان ایک حساس صورتحال سے دوچار ہوا ہے اور اس بحران نے اس ملک کو خطرناک صورتحال سے دوچار کردیا ہے ۔
جولان میں غاصب صیہونی حکومت کی سرگرمیوں، جبھتہ النصرہ اور داعش کی جانب سے لبنان کو ملنے والی دھمکیوں اور شام کے حوالے سے محالفین اور حامیوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات، جملہ اس بحران کی کڑیاں ہیں۔
لبنان کے عوام اور حکومت کے سر پر منڈلانے والے اس قسم کے خطرات اور لبنان میں سکیورٹی کی کارروائیوں کے باوجود شامی پناہ گزینوں کے سماجی ، سلامتی، سکیورٹی، اور اقتصادی طور پر پڑنے والے اثرات کے تناظر میں کوشش کی گئی کہ ملکی اور غیر ملکی رپورٹوں کا دقت سے جائزہ لیا جائے تا کہ اس ملک میں سکیورٹی کے حوالے سے کوئی مشکل پیش نہ آئے۔لبنان کے شمال مشرقی علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کیلئے کی جانے والی کارروائی سے دکھائی دیتا ہے کہ غیر ممالک کی جانب سے سبز چراغ دکھانے کے بعد اس ملک میں صدر کے انتخاب کیلئۓ بحران ختم ہو جائے گا اور اس ملک میں صدر کا انتخاب ممکن ہو سکے گا۔ تاہم لبنان میں حزب اللہ اور المستقبل پارٹی کے مابین ہونے والی مثبت گفتگو بھی صدر کے انتخاب کے حوالے سے رکاوٹوں کے دور ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔
البتہ یہ بات تو واضح ہے کہ غیر ملکی عناصر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ لبنان کے اندرونی حالات کو خراب کئے جانے سے اجتناب کرتے ہوئے تکفیری گروہوں کے ذریعے اس ملک کے جنوب ، مشرقی سرحدوں سے حزب اللہ پر دباو ڈالنے کی کوشش کی جائے تاکہ اس طریقے سے حزب اللہ کی طاقت کو کم کیا جائے۔ اور اس بار ماضی کی پالیسی سے ہٹ کر یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ملک میں قومی، مذھبی، اور لسانی بنیادوں پر خونریز جھڑ پیں نہ ہوں۔ البتہ اس قسم کے فیصلوں کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے عالمی برادری نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے کہ لبنان کی صورتحال ایسی ہے کہ اسرائیل کی سلامتی سے اس کا براہ راست تعلق ہے اور حزب اللہ کے اقدامات اس ملک میں کافی موثر ہیں ۔ حزب اللہ نے اس ملک میں شمال اور دیگر سرحدی علاقوں سے داخل ہونے والے دھشتگردوں کے خلاف سخت کار روائی کی اور اگر لبنان میں کوئی جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس جنگ کی آگ پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا کہ جس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائیگا۔
لبنان کی صورتحال سے بعض مغربی اور عرب ممالک فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اس ملک میں جھڑپوں کاایک سلسلہ شروع ہو تاکہ وہ باہر سے اس کا نظارہ کر کے اپنے مفادات حاصل کریں اور اس قسم کی صورتحال میں لبنان کے ذریعے شام کی سرحدوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں تا کہ حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے اقدامات کو روک سکیں۔
درحقیقت لبنان کےبحران کی دو وجوہات ہیں۔
اول یہ کہ اس ملک کای خارجہ پالیسی اس ملک کی اندرونی صورتحال پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اور دوم یہ کہ سیاسی گروہ مشترکہ مفادات پر اپنے مفادات کو تر جیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے دشمن اس مسئلے سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ البتہ نبی بری اور سعد حریری کے مابین ہونے والی ملاقات کے بعد صدر کے مسئلے کے حل کی کچھ امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔ البتہ اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ لبنان میں دھشتگردوں کے خلاف کارروائی اور جدوجہد سب کا مطالبہ اور سب اس سے متفق ہیں تاہم دھشتگردوں کے خلاف کارروائی کے طریقہ کار کے بارے میں ان میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور اگر لبنان کی جماعتیں چاہتی ہیں کہ اس ملک میں امن و امان برقرار ہو اور اس ملک کے عوام سکھ کا سانس لیں تو دھشتگردی کے خلاف انھیں ایک ہونا پڑے گا تا کہ ایک متفقہ فیصلے کے بعد مل کر دھشتگردی کا قلع قمع کیا جاسکے۔