الوقت - موجودہ حالات میں عراق کی مرکزی حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سنی عرب اکثریتی علاقوں میں زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اور عوام کی پیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ مدد کی جانی چاہئے۔ حکومت کا خیال ہے کہ ملک کے سنی مسلمانوں کو بغداد کی حکومت کے ڈھانچے میں زیادہ سے زیادہ مشارکت کا موقع فراہم کیا جائے جبکہ سنی سیاست داں اس نتیجے پر پہنچیں ہیں کہ بغداد کی مرکزی حکومت کے ساتھ ان کے تعاون سے ان کے مفاد پورے ہوں گے اور یہ ملک اور سنی مسلمانوں کے مفاد میں ہوگا۔ مجموعی طور پر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مستقبل میں عراق کی مرکزی حکومت جانب سنی عربوں کے تعاون کا مشاہدہ کیا جائے گا۔
داعش کے بعد عراق کی اصطلاح سیاسی تجزیہ نگاروں نے بنائی ہے تاکہ داعش کے خاتمے کے بعد عراق کا مستقبل کیسا ہوگا۔ اس موضوع کے تحت اس بات پر گفتگو ہوتی ہے کہ عراق میں داعش کے خاتمے کے بعد کیسا نظم و نسق ہوگا، سیاسی نظام کیسا ہوا، سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں کیسی ہوں گی۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر عراق اور دنیا کے سیاسی حلقے بحث کر رہے ہیں۔ در حقیقت 2003 میں عراق کی بعثی حکومت کی سرنگونی کے بعد عراق نئے سیاسی مرحلے میں داخل ہوا اور اسی تناظر میں ہر طرح کے سیاسی اور اجتماعی عمل میں شیعہ، سنی اور کردوں کی شناخت کو نظر انداز کرنا غیر ممکن ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے عراق میں داعش کے بعد اہل سنت کے مستقبل پر گفتگو کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
داعش کے بعد عراق کے تعلق سے جب بھی گفتگو ہوتی ہے تو اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ داعش کے چنگل سے موصل سٹی کی مکمل آزادی، عراق کا اہم نکتہ ثابت ہو سکتا ہے۔ موصل سٹی کی آزادی کی مہم 17 اکتوبر 2016 کو وزیر اعظم حیدر العبادی کے حکم سے شروع ہوئی اور فوج نے اس آپریشن کے دوران اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ حالیہ کچھ برسوں کے دوران عراقیوں کے لئے سب سے اہم مسئلہ داعش سے نجات پانا تھا لیکن اس گروہ کے عراق میں آخری سانس لینے سے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ عراق کا مستقبل کیسا ہوگا اور ملک کا مستقبل کس سمت گامزن ہے۔ دو ایں اثنا مسعود بارزانی کی سربراہی میں کردوں نے گزشتہ کی بہ نسبت پوری طاقت سے آزادی کا نعرہ لگانے لگے اور عراق کے اہل سنت بھی اس مسئلے میں پیچھے نہیں رہے۔ بہرحال عراق کے مستقبل میں اہل سنت کے مقام کے لئے مندرجہ ذیل سبب بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
پہلا : کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش کے بعد عراق کے اہل سنت خودمختاری کی جانب قدم پڑھائیں گے۔ یہ مسئلہ اس بنا پر پیش کیا گيا کہ عراق کے کردستان علاقے کی خودمختاری کے اعلان کے بعد متحد عراق کا کوئی مطلب ہی نہیں باقی رہ جاتا اور اس کے نتیجے میں عرب سنی بھی کردستان کی طرح اپنی خودمختاری کے راستے پر گامزن ہو جائیں اور عراقی حکومت تین آزاد حکومتوں میں تقسیم ہو کر رہ جائے۔ اس منصوبے کی سعودی عرب اور صیہونی حکومت بہت زیادہ حمایت کر رہے ہیں۔
دوسرا : دوسرا مسئلہ عراق کے مستقبل میں سنی عربوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ اس میں یہ بات پیش کی جا رہی ہے کہ کردستان کی طرح عراق میں فیڈرل حکومت کا قیام ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت عراق سنی، کرد اور شیعہ علاقوں میں تقسیم ہو جائے گا، اس منصوبے کی حمایت سعودی عرب، کرد حکام، ترکی اور کسی حد تک امریکا کر رہے ہیں۔
تیسرا : داعش کے بعد عراق کے مستقبل میں اہل سنت کے مقام کے بارے میں یہ مسئلہ پیش کیا جا رہا ہے کہ عراق کی مرکزی حکومت کے ساتھ ان کے اتحاد سے مرکزی حکومت مزید مضبوط ہوگی۔ موجودہ وقت میں عراق کی مرکزی حکومت نے اس مسئلے پر خاص توجہ دینا شروع کر دیا ہے تاکہ بغداد کی مرکزی حکومت میں اہل سنت عربوں کو جگہ دی جائے اور اس سے مرکزی حکومت کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔