الوقت - ایک مشہور عرب اخبار نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے اچانک دورہ عراق کا سبب قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ عراق کی ثالثی سے ریاض کو علاقے میں الگ تھلگ پڑنے سے روک دے۔
رای الیوم اخبار کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ عراق، تہران پہنچنے کا سب سے چھوٹا اور ساتھ ہی سب سے کھلا راستہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق اور سعودی عرب کے کشیدہ بلکہ بڑی حد تک منقطع تعلقات کے مد نظر عادل الجبیر کے بغداد کے دورے کو اچانک ہی کہا جائے گا کیونکہ کئی سال بعد بغداد میں سعودی عرب کے پہلے سفیر سامر السبہان کے اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے یہ کشیدگی اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی اور سعودی عرب انہیں واپس بلانے پر مجبور ہو گیا تھا۔
اس نامور عرب مبصر کا کہنا ہے کہ کچھ چیزوں کی وجہ سے سعودی عرب کے وزیر خارجہ عراق کے دورے پر مجبور ہیں :
- عراقی حکام دہشت گردی سے جنگ میں مکمل طور پر متحد ہیں اور انہوں نے کئی شہروں کو داعش کے قبضے سے آزاد کرایا ہے۔
- عراق کی فضائیہ نے ایران، امریکا اور شام کی حمایت سے جدوجہد کا دائرہ بڑھا دیا ہے اور اب وہ شام کے سرحدی شہر البوكمال میں داعش کے ٹھکانوں پر حملہ کر رہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ عراق، شام میں کردار ادا کر رہا ہے۔
- داعش کے دہشت گردوں نے عراق اور اردن کی سرحدوں پر واقع طریبيل علاقے پر حملہ کرکے اردن کے متعدد فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ علاقہ سعودی عرب کی سرحد کے قریب ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ داعش، سعودی عرب کی سرحد کے قریب کے علاقوں میں زیادہ سرگرم ہو گیا ہے۔
- سعودی عرب کے رہنما یہ سمجھ چکے ہیں کہ الگ تھلگ کرنے اور فرقہ واریت کی بنیاد پر پڑوسی ممالک کے ساتھ تصادم کی پالیسی بہت خطرناک ہے اور انہیں لچک دکھانی ہوگی کیونکہ شام سے سعودی عرب کے تعلقات اچھے نہیں ہے، یمن سے وہ جنگ کر رہا ہے، ایران سے اس کے تعلقات میں کشیدگی ہے اور عراق سے اس کے تعلقات تقریبا منقطع ہو چکے ہیں۔
- سعودی عرب اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ علاقے کے مستقبل اور شام کے بحران کے حل میں ایران و عراق کا اہم کردار ہو گا اور اسی لئے اسے لگتا ہے کہ یمن کی دلدل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ایران سے مذاکرات اور اس کے لئے عراق اچھا ثالثی ہو سکتا ہے۔
- رای الیوم اخبار کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے آخر میں لکھا ہے کہ مجموعی طور یہ کہا جا سکتا ہے کہ عادل الجبیر کا بغداد کا اچانک دورہ، علاقے کے سلسلے میں اپنی پالیسیوں پر سعودی عرب کے نظر ثانی کا نتیجہ ہو اور وہ خود کو علاقے میں الگ تھلگ پڑنے سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے اور شاید اسے ایک طرح سے اس بات کا اعتراف سمجھا جا سکتا ہے کہ فرقہ واریت پر مبنی سعودی عرب کی گزشتہ برسوں کی پالیسیاں ناکام رہی ہیں۔