الوقت - پاک فوج کے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کے تعلق سے حالیہ دنوں میں کافی کشمکش پیدا ہوگئی ہے۔ کچھ رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ وہ سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد کے کمانڈر منتخب ہونے والے ہیں۔ اس خبر پر پاکستان کے داخلی حلقے سے شدید رد عمل سامنے آیا اور سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں مزید چمک پیدا ہوئی ہے۔
المانیٹر ویب سائٹ نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد میں اس وقت 40 ملک شامل ہیں۔ بعض سعودی کمانڈروں کا خیال ہے کہ پاکستان کو اس فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کر لے کیونکہ پاکستان ہی وہ تنہا مسلم ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ در حقیقت پاکستان دنیا میں اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کی تیزی سے توسیع کر رہا ہے۔ سعودی عرب بھی کئی عشروں سے فوجی مسائل میں پاکستان پر منحصر رہا ہے۔
1980 کے عشرے میں ہزاروں پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات ہوئے لیکن پاکستان نے یمن میں الحوثیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی مدد کرنے کے لئے اپنے فوجی یمن بھیجنے کی ریاض کی درخواست کو قبول نہیں کیا۔ 2015 میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر یمن میں سعودی عرب کی سربراہی میں فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی قرارداد کے خلاف ووٹ ڈالا تھا اور صرف لشر طیبہ جیسے انتہا پسند گروہ نے ہی یمن میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی کی حمایت کی تھی۔