الوقت - ہميشہ سے سعودي عرب پر بہت زيادہ تنقيد كي گئي ہے كہ وہ داعش كي اقتصادي اور اسلحہ كے لحاظ سے مدد كرتا رہا ہے۔ جيسا كہ شمالي عراق ميں موصل كے عمائدين كي كونسل كے ايك ممبر راہيم الطائي نے اس بارے ميں انكشاف كيا ہے كہ سعودي عرب اس شہر كے ۴۰ علماء اور شيوخ كو جو داعش كے حاميوں ميں سے ہيں ماہانہ ۱۵۰۰ ڈالر ديتا ہے۔
ليكن اس بارے ميں سعودي عرب كے اس اتحاد ميں شامل ہونے كے بارے ميں اہم ترين سوال زہن ميں آتا ہے وہ يہ ہے كہ سعودي عرب كا اس دہشت گرد گروپ كے ساتھ ايك اعتقادي تعلق كا ہونا اور پھر اس كي گزشتہ سالوں ميں اقتصادي مدد كرنا، ان سب چيزوں كو مدنظر ركھتے ہوئے سعودي عرب كا داعش كے خلاف اتحادي بننے كا اصل ہدف اور مقصد كيا ہوسكتا ہے؟ برطانوي اخبار گارڈين نے اس بارے ميں رپورٹ دي ہے كہ امريكہ كے ساتھ داعش كے خلاف تعاون كرنے ميں خليجي ممالك ميں سے سعودي عرب سب سے غير يقيني ملك ہے۔ سعودي عرب كي اس جنگ ميں تعاون نہ كرنے كي وجہ يہ ہے كہ وہ چاہتا ہے صرف سني قبائل كے لوگوں كي مدد كي جائے اور شام كے مخالفين كي تربيت كو ترجيح دي جائے۔
كيونكہ سعودي عرب امريكہ كي طرف سے پريشاني ميں مبتلاء ہے۔ جسكي وجہ باراك اوبامہ كا شام كي جنگ اور ايران كے بارے ميں اپني پاليسي ميں اتار چڑھاؤ كا ظاہر كرنا ہے۔ اسي لئے اس پر زيادہ اعتماد نہيں كيا جاسكتا۔ سعودي عرب كا مدد طلب كرنا امريكي سياست كے مبہم ہونے اور داعش كے خطرناك ہونے كو ظاہر كرتاہے۔حقيقت ميں اس رپورٹ سے يہ واضح ہوتا ہے كہ سعودي عرب نے داعش كے خلاف اتحاد اس كے ڈر اور خوف سے كيا ہے نہ كہ ايك دہشت گرد گروہ ہونے كي حيثيت سے۔
ان كي پريشانيوں ميں اس وقت سجنيدگي آئي جب عراق اور شام كا نام اسلامي ملكوں كي فہرست سے نكال ديا گيا اور دہشت گردوں كے راہنماؤں نے اسے مزيد وسعت دينے كي خواہش ظاہر كي۔ كيونكہ سعودي عرب كےلئے واضح ہوگيا تھا كہ داعش محمد بن عبدالوہاب كے نظريہ اور وہابيت كي پہلي نسل كے قبائل كے شہر كے درپےہيں نہ كہ سعودي عرب كي حكومت كے ۔ كيونكہ سعودي عرب كي داخلي فضا تكفيري گروہ كے تفكر كو پروان چڑھانے كےلئے بہت موزوں ہے۔ يہ وجوہات اس ملك كےلئے نگراني كا سبب بن گئي ہيں ۔ اس ضمن ميں كہ اس ملك كي باہمي سرحديں ان ممالك كے ساتھ مشترك ہيں۔ جن ميں عراق، اردن اور يمن شامل ہيں جن سے اس ملك كي حكومت كو ہميشہ سے خطرہ لاحق رہا ہے۔
ايسي صورت حال مين كہ ايك ايسي حكومت كا قيام جو بغير كسي حدود و قيود كے ہو اور اس كي بنياد وہابيت كے نظريہ پر ركھي گئي ہو سعودي عرب كےلئے خطرہ كا باعث ہے۔ چونكہ سعودي عرب نے ہميشہ سے اس چيز كي مخالفت كي ہے كہ كوئي بھي تنظيم حتي اخوان المسلمين بھي اس كے ملك كي اندروني حدود ميں اسلامي پروجيكٹ پر كام نہ كرے .
لہذا سعودي عرب كےلئے اپنے ملك اور خطے كي اندروني فضا كي حفاظت كےلئے داعش كے خلاف اتحادي بننا ايك بہانہ تھا تاكہ وہ اس قيمتي موقعہ كو غنيمت جانتے ہوئے اپنے دشمن كي ايڈيالوجي كو ختم كرسكے، جس كے لئے اسے بہت اچھے مواقع مہيا ہوئے ہيں۔ جيساكہ گزشتہ سال مارچ ۲۰۱۴ كو سعودي عرب كي وزارت كي طرف سے ايك بيان شايع ہوا تھا جس ميں سعودي عرب نے اخوان المسلمين ، داعش، جبعتہ النصرہ اور حزب اللہ جيسي جماعتوں كو دہشت گرد گروپوں ميں شامل كيا تھا۔ اس حكم كي بنياد ہر يہ فتوي ديا گيا كہ ان جماعتوں كےلئے كام كرنا اور كسي بھي قسم كي مالي امداد كا جمع كرنا حرام ہے۔
ان وجوہات كو مدنظر ركھتے ہوئے سعودي حكام نے (موصل كے سقوط كے بعد) اس اتحاد ميں شامل ہونے كےلئے امريكي اعليٰ حكام كے ساتھ ايك اجلاس ركھا جو اس سال كے اہم ترين اجلاسوں ميں سے ايك تھا جس ميں امريكہ كے وزير خارجہ جان كيري اور سعودي عرب كے بادشاہ ملك عبداللہ بن عبدالعزيز نے ملاقات كي۔ جس ميں ملك عبداللہ نے امريكہ كو يقين دہاني كروائي كہ ’’ ہماري طرف سے آپ كو ہر طرح كي مدد كي ضرورت ہو اس كے لئے ہم حاضر ہيں اور ہر معاملے ميں ہماري حمايت آپ كے ساتھ ہے‘‘۔ اس بنا پر سعودي عرب نے پہلے مرحلے ميں ۱۰۰ ملين ڈالر اقوام متحدہ كےلئے دہشت گردي كے خلاف داعش جنگ ميں مختص كئ اور اگلے مرحلے ميں ہي جدہ كے شہر ميں ايك كانفرنس كي ميزباني كي۔ اس كانفرنس ميں خليجي عرب ممالك كے وزرائے خارجہ كے علاوہ، يو ايس اے ، عراق، تركي، مصر اور اردن كے وزرائے خارجہ بھي موجود تھے۔ اس كے علاوہ اس كانفرنس ميں عراق اور سعودي عرب كے وزرائے خارجہ كي ملاقات ہوئي جس ميں اس بات پر اتفاق ہوا كہ عراق ميں پھر سے سعودي عرب كا سفارت خانہ كھولا جائے اور سعودي عرب نے ۱۹۹۰ كے بعد پہلي بار بغداد حكومت كے لئے اپنا سفير بھيجا۔
جدہ كانفرنس كے بعد اسي طرح كي ايك اور كانفرنس پيرس ميں منعقد ہوئي جس ميں سعودي عرب سميت ۲۰ سے زائد ممالك نے حصہ ليا۔ جس ميں سعودي عرب كے وزير خارجہ نے يہ اعلان كيا كہ داعش كے خلاف اس بين الاقوامي اتحاد ميں ہم شريك ہيں اور اس ضمن ميں عراق كو داعش كے خلاف جنگ كےلئے ۵۰۰ ملين ڈالر دينے كا وعدہ كر تے ہيں ۔
ان ساري چيزوں كو ديكھ كر كہا جاسكتا ہے كہ سعودي عرب كا (داعش كے خلاف) اس اتحاد ميں داعش كے خلاف جنگ ميں اقتصادي حوالے سے كليدي قردار ہے۔ جيسا كہ مغربي ميڈيا نے متعدد بار ايسي خبريں شائع كي ہيں كہ داعش كے خلاف جنگ ميں امريكہ كے اصرار پر خليجي عرب ممالك نے مالي ذمہ داري كے فرائض قبول كئے ہيں۔ اہم نكتہ يہ ہے كہ يہ وہي اسلحہ ، ہتھيارہيں جو اس سے پہلے امريكہ اور مغربي ممالك سے ايك معاہدے كے ذريعے خريدے گئے تھے۔ لہذا اس وجہ سے يہ دونوں ممالك داعش كے خلاف اتحاد ميں شام كے لوگوں كي توجہ كا مركز بنے ہيں۔ان كا آپس ميں فوجي تعاون ايك نئي بات ہے اس وقت سے جب سے عرب ممالك جيسے مصر اپني فوجي طاقت نہيں ركھتے تھے۔ ان حالات مين باہمي تعاون سلامتي اور سياسي ہر دو لحاظ سے دونوں ممالك كےلئے خطرات كا باعث بن سكتا ہے۔ چونكہ داعش كے خلاف مغربي اتحاد ميں سعودي عرب كا شامل ہونا انتہا پسند سنيوں كو متحرك كرسكتا ہے۔ سياسي ماہر عبدالخالق عبداللہ بھي اس بارے ميں كہتا ہے كہ اس كے ملك كو جو بھي خطرہ ہے داعش كي جوابي كاروائي سے ہے۔ انہوں نے كہا كہ خليجي ممالك كے باہمي تعاون كونسل كے اختلاف كي وجہ سے بھي يہ نتيجہ نكالا جا سكتا ہے كہ سعودي عرب اور امارات اس اتحاد ميں شامل ہوئے ہيں۔
ان تمام حالات كو پيش نظر ركھتے ہوئے كہا جا سكتا ہے كہ داعش كے خلاف اتحاد ميں يہ عرب ممالك اپنے سياسي پروپيگنڈے كے برخلاف مصروف عمل ہيں ۔ كيونكہ يہ مشخص ہے كہ ابھي تك يہ داعش كے خلاف جنگ ميں كوئي فوجي كردار ادا نہيں كررہہے ہيں۔ جيسا كہ مغربي ذرائع كے مطابق داعش كے خلاف اتحاد ، ايك سياسي اتحاد ہے نہ كہ فوجي اتحاد۔ امريكہ ان عرب ممالك كو اس اتحاد مين صرف ايك وسيلے كے طور پر استعمال كررہا ہے۔ اور ان عرب ممالك كے اتحاد كے ذريعے اپنے آپ كو براہ راست سني قبائل كےخطے سے دور ركھنا چاہتا ہے تاكہ اس كا چہرہ ان پر آشكار نه ہو۔
دوسرے لفظوں ميں عرب ممالك كي افواج جنگي لحاظ سے امريكي افواج كےمقابلے ميں كوئي خاص حيثيت نہيں ركھتي اور زيادہ تر رسمي طور پر فوجي كردار كے بارے ميں كہا جاتا ہے جبكہ امريكہ كےلئے عرب ممالك كے تيل سے حاصل ہونے والا سرمايہ سب سے زيادہ اہم ہے۔