الوقت - رياض ميں وقوع پذير ہونے والي اس داستان نے سعودي عرب كو سيسي اور طيب اردغان كے درميان ثالث كے طور پر پيش كيا ہے، اور ميڈيا ميں اس سے متعلق بہت سے سوالات نے جنم ليا ہے۔ سيسي نے شرم الشيخ ميں اقتصادي كانفرنس كے برپا كرنے اوردہشت گردوں سے مبارزہ كے ليے ايك عرب فوج كے قيام كا مطالبہ كيا اور اسي مقصد كے ليے اس نے سعودي عرب كا سفر كيا، اسي طرح سعودي عرب سے رخصت ہونے سے پہلےانھوں نے سعودي عرب سے مالي اور اخوان المسلمين سے مقابلے كے ليے فوجي امداد كے فراہمي كے حصول كے ليے زور ديا۔
تركي كے صدر طيب اردگان نے ملك سليمان سے اپنے ملاقات ميں دونوں ممالك كے درميان باہمي تعلقات كو دوبارہ استوار كرنے پر زور ديا ،اور اسي طرح شام ميں بشار الاسد كي حكومت كے سقوط تك باغيوں كي پشت پناہي پر اتفاق كيا ۔ العربيہ ٹي وي چينل كے مينيجر جمال خاشقچي نے اپنے ايك بيان ميں كہا ہے كہ"تركي كے صدر رجب طيب اردگان كا دورہ سعودي عرب ،اور مستقبل ميں سعودي بادشاہ كا دورہ آنقرہ، دونوں ممالك كے درميان جديد ارتباطات كا پيش خيمہ ثابت ہوں گے۔
ليكن سوال يہ ہے كہ كيا سعودي عرب ،شام اور ايران كي قيادت سے نمٹنے كے ليے تين ملكي اتحاد (سعودي عرب ،مصر،تركي) قائم كر رہا ہے؟
سعودي عرب كي نئي پاليسي يہ ہے كہ داخلي بحرانوں ،اور اسي طرح بين الاقوامي بحرانوں سے نمٹنے يا يمن ميں انصاراللہ كا قيام اور داعش كي دھمكيوں سے نمٹنے كے ليے مصر اور تركي كي مدد سے ايك سني تنظيم تشكيل دي جائے كہ جو ان تمام مشكلات كا مقابلہ كر سكے، اسي طرح سيسي اور اس كے ديرينہ دشمن يعني اردگان كہ جس كے اقدمات ہميشہ مصري حكومت كے مخالف رہے ہيں ، اُن كے درميان صلح كرائي جائے،تا ہم اس بات كا امكان نہيں ہے كيوں كہ اخوان المسلمين كے موضوع كو ترجيح دي جا رہي ہے كہ جس كي طرف بعد ميں اشارہ كيا جائے گا،
شواھد اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ سہ ملكي اتحاد كي كاميابي كے مواقع بہت كم ہيں،كيونكہ مصر كے صدر كو مالي امداد كي ضرورت ہے،سيسي جس دور ميں وزير دفاع تھا اسي كي طرف سے اس قسم كے راز افشاں ہوئے ہيں كہ مصر ماضي ميں سعودي عرب اور ديگر خليجي ممالك كي طرف سے سكيورٹي فراہم كرنے كے نام پر بليك ميلنگ جيسے مسائل سے دوچار رہا ہے۔ اردگان كي طرف سے عرب فرنٹ لائن كے ساتھ ہم آہنگي،تركي اخوان المسلمين كو مصر ميں ايك نئے طريقہ سے سياسي محاذ پر ديكھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے كہ اس كو "اسلام تركي" كے نام سے ياد كيا جائے۔ اور سعودي عرب مالي پشت پناہي سے سيسي كو قانع كرنےكي كوشش كرے گا،اور اس كے علاوہ داعش نے سعودي عرب كو دھمكي دي ہے اور مكہ اور مدينہ كو اپنے ہيڈ كواٹركے ليے منتخب كيا ہے، اسي طرح مصر صحراي سينا اور ليبيا ميں" انصار بيت المقدس" سے مصروف جنگ ہے۔ جو چيز اس سہ ملكي اتحاد ميں شك كا باعث بن رہي ہے، وہ موانع ہيں كہ جس پر مصر ، تركي اور سعودي عرب كا اتفاق ہوا ہے،كيونكہ ان دو ممالك كے تعلقات ميں بہت سے نشيب و فراز آئے ہيں،ليكن اس اتحاد كي اہم ترين ركاوٹيں درج ذيل ہيں:
اول: اخوان المسلمين كے ساتھ رابطہ
جب مصر اخوان المسلمين كو ايك دہشتگرد تنظيم جانتاتھا اور تركي كے ساتھ تعلقات صرف اس شرط پر استوار كرنا چاہتا ہے كہ اگر وہ اخوان المسلمين كي پشت پناہي نہ كرے، تركي كے صدر نے اس شرط كي شديد مخالفت كي اور اسے اپنے اعتقادات ميں سے قرار ديا، بالكل اسي طرح كہ سعودي عرب كي پاليسي اس تنظيم كے ليےملك سليمان كے دوران بادشاہي ميں تبديل ہوئي، كہ اخوان يمني (حزب اصلاح) كے ساتھ سعودي عرب كے نزديكي روابط اس كي واضح دليل ہيں۔
دوم: يمن كا مسئلہ
يمن كي موجودہ صورتحال نے سعودي عرب كي تشويش ميں اضافہ كر ديا ہے، اور سعودي عرب كوشش كر رہا ہے كہ القاعدہ كي حامي تنظيموں كو انصاراللہ كے خلاف استعمال كرے ، اور تركي بھي اس امر ميں حزب اصلاح( اخوان المسلمين) كي پشت پناہي كے سبب شراكت دار ہے، جبكہ مصر اس مسئلہ ميں بالكل جدا نظريہ ركھتا ہے، جب سيسي رياض ميں موجود تھا عين اس وقت قاہرہ "انصاراللہ" كے ايك گروہ كي ميزباني ميں مصروف تھا، اور اس كے علاوہ مصر نے سعودي عرب كي يمن ميں " باب المندب" كے راستے داخل ہونے كي درخواست كو شديد طرح سے رد كيا ہے۔
سوم: شام كا مسئلہ:
سعودي عرب اور تركي كے قريبي تعلقات ان ممالك ميں ،شام حكومت مخالف گروپس اور انكي تربيت كا سبب بنے، جبكہ يہ دو ممالك شام كے اس بحران كا حل باغيوں كو مستحكم كرنے اور بشار الاسد كي حكومت كے خاتمہ ميں سمجھتےہيں جبكہ مصر كے صدر ، اخوان المسلمين اور داعش سے نمٹنے كے ليے ايك ہي نظريہ ركھتے ہيں، اور مصري صدر اس بات پر يقين ركھتے ہيں كہ شام كے صدر مسائل كے حل كا اہم جز ہيں اور انھيں كسي بھي صورت ميں فراموش نہيں كيا جا سكتا۔
چھارم: دوسرے مسائل
اسي طرح كچھ ديگر عوامل موجود ہيں كہ ان سے كسي بھي صورت ميں غافل نہيں ہوا جا سكتا، متحدہ عرب امارات اور سيسي ايك اہم معاہدے كے پابند ہيں كہ جواخوان كے بدترين دشمنوں ميں سے ہيں اور تركي كے ساتھ اچھے تعلقات نہيں ركھتے، اور اس كے علاوہ متحدہ عرب امارات كے رياض كے ساتھ بھي تعلقات كچھ مسائل كي وجہ سے خوشگوار نہيں ہيں اور محمد بن زيد اور محمد بن نايف كے درميان بہت سے اختلافات پائے جاتے ہيں۔
آخر ميں صرف اتنا كہا جا سكتا ہے كہ كہ مصر اور تركي كے درميان تعلقات موجودہ شرايط ميں محال نظر آتے ہيں جبكہ خطے ميں اس كے علاوہ بھي بہت سے اتحاد وجود ركھتے ہيں جو كہ اس اتحاد كے مخالف ہيں جيسے تركي، سعودي عرب قطر اور مصر ،شام اور متحدہ عرب امارات كے درميان اتحاد۔