الوقت - ہر چند كہ پيپلز پارٹي كي حكومت آنے اور اس ملك كے صدر آصف علي زرداري كي آزاد پاليسيوں اور ايران كے ساتھ ان كے اچھے روابط كي وجہ سے پاكستان اور سعودي عرب كے تعلقات ميں پہلي والي گرمجوشي نہيں رہي۔ پاكستان كي حكومت اس مرحلے ميں اپني زبوں حالي كا شكار معيشت كو بہتر بنانے اور قرضوں كا بوجھ كم كرنے كيلئے اپنے اتحادي اور دوست ممالك سے مالي امداد حاصل كرنے كي كوشش ميں تھا۔ جبكہ سعودي عرب كو پاكستان اور ايران كے قريب آنے كي وجہ سے اس لئے تشويش لاحق تھي كہ كہيں خليج فارس كےعلاقے ميں طاقت كا توازن بگڑ نہ جائے اور ايران تيل سے مالا مال اس علاقے ميں اثر و رسوخ حاصل نہ كر جائے۔ اس كے علاوہ ايك اور موضوع جس نے پاكستان اور سعودي عرب كے تعلقات كو متاثر كيا وہ پاكستان كيلئے ايران كي صلح گيس پائپ لائن اور گيس كي سپلائي تھي اس لئے كہ سعودي عرب لاكھ كوششيں كرنے كے باوجود آصف علي زرداري كو اس منصوبے سے عليحدہ ہونے كيلئے قائل نہ كر سكا۔ اس قسم كے مسائل اس بات كا باعث بنے كہ سعودي عرب، 2013 كے عام پارليماني انتخابات ميں مسلم ليگ (ن) كي بھر پور حمايت كرے اور اقتدار تك رسائي كيلئے اپنے ديرينہ دوست يعني مياں نواز شريف كيلئے حالات فراہم كرے۔ ليكن اس كے باوجود پاكستان اور اسي طرح علاقے ميں كچھ اس قسم كے موضوعات اور مسائل تھے اور ہيں كہ جومياں نواز شريف كي خارجہ پاليسي پراثر اندازہوئے اور سعودي عرب كو فري ہينڈ دينے كا موقع ضائع ہو گيا۔اس ميں سے ايك موضوع يہ ہے كہ پاكستان علاقے كے ان محدود ممالك ميں سے ايك ہے كہ جس كے دوستانہ تعلقات ايران اور سعودي عرب كے ساتھ ہيں اور ايسا دكھائي نہيں ديتا كہ وہ اپنے روابط رياض يا تہران كي وجہ سے كسي ايك كے ساتھ خراب كرے۔ پاكستان ، ايران كا ہمسايہ ملك ہے اوراس بڑي آبادي والے ملك ميں سب سے بڑي اقليت شيعہ مسلمانوں كي ہے اور يہ مسئلہ پاكستان كي نظر سے اس ملك ميں ايران كے اثر و رسوخ اور مفادات كيلئے اہميت كا حامل ہے۔ ليكن اس كے ساتھ ساتھ پاكستان كو سعودي عرب كي مالي امداد كي بھي ضرورت ہے۔ اس لئے كہ سرد جنگ كے دوران پاكستان، سعودي عرب سے مالي امداد لے رہا تھا اور يہ سلسلہ اب بھي جاري ہے۔ البتہ مياں نواز شريف ہميشہ ہي مغرب اور سعودي عرب كي نسبت ايران سے قريب رہا ہے اور اپنے مغربي ہمسايہ ملكوں كے ساتھ محتاطانہ رويہ اور موقف اختيار كيا ہے۔ درايں اثناء پاكستان ميں بڑھتي ہوئي آبادي اور اس ملك كي صنعت كو توانائي كي ضرورت اور توانائي كي كمي كو پورا كرنے كيلئے كم قيمت پر توانائي كا حصول اس بات كا باعث بنا كہ اسلام آباد اپني انرجي، كي ضرورتوں كو پورا كرنے كي كوشش كرے اور ايران جيسے ہمسايہ ملك كي وجہ سے جو قدرتي وسائل سے مالا مال ہے پاكستان كو يہ سنہري موقع ملا كہ وہ اپني انرجي كي كمي كو ايران سے پورا كرے اور ايران نے اپنے مناسب اور مثبت رويے اور كردار سے پاكستان كو بتا ديا كہ وہ اس كي توانائي كي ضروريات كو پورا كرنے كيلئے تيار ہے۔ البتہ پاكستان ميں گيس كي كمي خاص طور سے بجلي كي پيداواركم ہونے سے گيس كي طلب بڑھ جانے كي باتيں كي جا رہي ہيں اور اس قسم كي صورتحال ميں پاكستان ماضي ميں اپني توانائي كي ضرورتوں كو پورا نہيں كر سكےگا اس رو سے اسے توانائي درآمد كرنے كي ضرورت ہے۔اور پاكستان جيسے ملكوں كيلئےمناسب اور كم قيمت پر ايران كي گيس ہے۔ ايران كے امن گيس پائپ لائن كي صورت ميں پاكستان كيلئے انرجي كا حصول مناسب ترين ذريعہ اور راستہ ہے۔ اور اگر جلد از جلد اس پروجيكٹ پر عمل درآمد نہ ہوا تو پاكستان توانائي كے بحران سے دوچار ہوسكتاہے۔
دوسرا اہم موضوع طالبان اور اس سے وابستہ گروہ ہيں جو حاليہ برسوں ميں سعودي عرب كيلئے اپنے اثر و رسوخ كو برقرار ركھنے ميں اہم آلہ كار كے طور پر پہچانے جاتے ہيں۔ طالبان اور مسلم ليگ (ن) كے مابين درپردہ روابط، طالبان كو مسلح كرنے ميں سعودي عرب كے كردار اور خود ساختہ جلاوطني كے دوران مياں نواز شريف كا سعودي عرب ميں ہونا، يہ سب اس بات كي نشاندہي كرتے ہيں كہ مياں نواز شريف آل سعود كي طرح طالبان كي حمايت كي پاليسي پر عمل كريں گے ليكن پاكستان كے عوام كا اہم مطالبہ اس وقت قومي اور فرقہ وارانہ كشيدگي كو ختم كرنے اور امن امان كي صورتحال كو بہتر بنانے كا ہے جسے مياں نواز شريف كي حكومت حل كرنے كي كوشش ميں ہے ۔ جبكہ افغانستان سے نيٹو فورسز كے انخلا كے بعد پاكستان ميں اس قسم كي كشيدگي ميں اضافہ ہونے كو خارج از امكان قرار نہيں ديا جا سكتا۔
بہرحال دونوں سممالك كي مشتركہ ضرورتيں يعني پاكستان كو رياض كي مالي امداد اور سعودي عرب كو پاكستان كي فوجي مدد و تعاون نے دونوں ملكوں كو ايك دوسرے كے ساتھ تعلقات كو فروغ دينے پر مجبور بنا ديا ہے۔ ليكن ملكي اور علاقائي سطح پرآنے والي تبديلياں اس بات كا باعث بنيں كہ مياں نواز شريف كي حكومت كو ايران جيسے ملكوں كي ضرورت پڑ گئي ہے۔بنابرايں دونوں ممالك كے تعلقات كي نوعيت اور سطح پر جو چيز اثر انداز ہوئي ہے وہ علاقائي سطح پر بدلتے ہوئے حالات ہيں كہ اس پر زيادہ توجہ دينے كي ضرورت ہے اس لئے كہ اس كا تعلق عام طور پرعلاقے كي سلامتي خاص طور پر پاكستان كے مفادات سے ہيں۔