الوقت - علامہ طاہرالقادري كي جماعت پاكستان عوامي تحريك اور عمران خان كي جماعت تحريك انصاف اور اسي طرح اس ملك كے سابق صدر ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف كي جماعت آل پاكستان مسلم ليگ كي جانب اشارہ كيا جا سكتا ہے۔ پاكستان كي ديني اور مذھبي جماعتوں نے عام انتخابات ميں متحدہ مجلس عمل كے پليٹ فارم سے شركت كرنے كے مقصد سے اس اتحاد كو ايك بار پھر فعال كرنے كي كوشش كي ليكن جماعت اسلامي اور جميعت علماي اسلام (ف) كے مابين پائے جانے والے اختلافات كي وجہ سے وہ اپنے اس مقصد ميں كامياب نہيں ہوئے تاہم جماعت اسلامي كي عدم شركت سے متحدہ ديني محاذ كا قيام عمل ميں آيا ۔ متحدہ مجلس عمل جو كئي مذھبي جماعتوں پر مشتمل ديني جماعتوں كا اتحاد تھا 2002 ميں عام انتخابات سے قبل تشكيل پايا اور پاكستان كي تاريخ ميں پہلي مرتبہ ايسا ہوا كہ اس ملك كي مختلف مكاتب فكر سے تعلق ركھنے والي جماعتيں اس اتحاد ميں شامل ہوئيں اور اس طرح متحدہ مجلس عمل اس ملك كي تيسري بڑي قوت كے طور پر سامنے آئي۔ ليكن متحدہ مجلس عمل خاص طور سے جماعت اسلامي اور جميعت علماي اسلام (ف) كے مابين پائے جانے والے اختلافات كي وجہ سے اس اتحاد كو 2008 كے پارليماني انتخابات ميں صرف چند نشستيں مليں۔ پاكستان كي تاريخ ميں اس ملك كي مذھبي جماعتوں كو اب تك ہونے والے پارليماني انتخابات ميں كوئي خاص كاميابي حاصل نہيں ہوئيں اس لئے وہ اب تك حكومت تشكيل دينے ميں كامياب نہيں ہوئيں ۔ البتہ اس كي ايك وجہ اس ملك كے اسلامي گروہوں ميں اتحاد كا فقدان، فوج كا انتہا پسندي كے فروغ ميں كردار اور پاكستان ميں غير ملكي من جملہ عرب اور مغربي ممالك كي مداخلت ہے۔ البتہ پاكستان كي فوج اور اسي طرح اس ملك كي سياسي جماعتيں، جن ميں زيادہ مذھبي رجحان نہيں پايا جاتا پاكستان ميں 68 سال بعد بھي ايك اسلامي حكومت كے نہ بننے كي ايك اہم وجہ ہے۔ البتہ اس بات كو بھي فراموش نہيں كرنا چاہئيے كہ پاكستان ميں اقتدار تك رسائي حاصل كرنے كيلئے پاكستان پيپلز پارٹي ، مسلم ليگ (ن) اور اسي طرح فوج كو اسلامي جماعتوں كي ضرورت پڑتي ہے اور اسي لئے اس ملك ميں ہونے والے پارليماني انتخابات كے موقع پر ان كي جانب سے اسلامي جماعتوں كے رہنماوں كي حمايت حاصل كرنے كيلئے ان سے رابطے كئے جاتے ہيں۔
پاكستان ميں سياسي، سكيورٹي اور حتي اقتصادي شعبے ميں فوج كے اثر رسوخ كي وجہ سے امريكہ اور برطانيہ كے منظور نظر فوجيوں پر مغرب كي سرمايہ كاري كا اصل مقصد و ھدف فوج كيلئے مختلف شعبوں ميں حالات سازگار بنانا ہے ہرچند كہ فوجي كودتا كے منفي اثرات مرتب ہوئے ليكن ان كي كوشش ہے كہ پاكستان كے سياسي نظام كو سيكولر ازم اور لبرازم كي جانب لے جايا جائے۔اسي لئے يورپي ممالك اور امريكہ نے اس ملك كے وزيراعظم مياں نواز شريف كے استعقي كي حمايت نہيں كي اور 2013 كے انتخابات ميں بڑے پيمانے پر ہونے والي دھاندلي پر سياسي جماعتوں كے مطالبے كي كوئي پرواہ نہيں كي اس لئے كہ مغرب كو افغانستان ميں قيام امن كيلئے مياں نواز شريف كي حكومت كي حمايت كي ضرورت تھي۔
بہر حال پاكستان ميں 2013 كے انتخابات مغعقد ہوئے اور اس ملك كي تاريخ ميں پہلي بار پاكستان پيپلز پارٹي نے پانچ سال تك حكومت كرنے كے بعد حكومت كي باگ ڈور مسلم ليگ (ن) كے سپرد كي۔ يہ موضوع اس لئے بھي اہميت كا حامل ہے كہ اس ملك كي تشكيل كے وقت سے ہي اس ملك كے سياسي حالات پر فوج كي گرفت مضبوط تھي اس لئے كوئي بھي حكومت پانچ سال تك حكومت نہ كر سكي اس لئے كہ فوج نے مارشل لاء كے ذريعے حكومتوں پر قبضہ كيا ۔ پاكستان ميں اس بار مياں نواز شريف كي حكومت كي تشكيل كے چند مہينے كے بعد حكومت كے خلاف سياسي محاذ آرائي كا سلسلہ اس وقت شروع ہوا كہ جب اس ملك كے وزير اعظم مياں نواز شريف نے فوج كے مشورے كے بغير ہندوستان كے ساتھ تعلقات بہتر بنانے كا فيصلہ كيا۔ اور يہ وہ وقت تھا كہ جب طالبان كے ساتھ مذاكرات ہو رہے تھے ۔
بہر حال علامہ طاہرالقادري كي جماعت پاكستان عوامي تحريك نے ملك ميں مالي بدعنواني، انصاف كي عدم فراہمي ، دھشتگردي اور بے روزگاري كي وجہ سے اور عمران خان كي جماعت تحريك انصاف نے2013 كے پارليماني انتخابات ميں بڑے پيمانے پر دھاندلي ہونے كے الزامات كے بعد حكومت كے خلاف اپني تحريك شروع كي اور اسي وجہ سے 2014 ميں اس ملك ميں احتجاج اور دھرنوں كا سلسلہ شروع ہوا اور پاكستان عوامي تحريك جو اس سے قبل تك پاكستان ميں اس حد تك فعال نہيں تھي تحريك انصاف ، مجلس وحدت مسلمين اور پاكستان مسلم ليگ (ق) كے ساتھ تحريك چلانے كي وجہ سے معروف ہو گئي اور ايك اہم اور بڑي جماعت كے طور پر پاكستان ميں اپني جگہ بنا لي۔ البتہ يوں دكھائي ديتا ہے كہ پاكستان عوامي تحريك اور تحريك انصاف كو اس بات سے اميد پيدا ہو گئي تھي كہ فوج اور حكومت كے مابين درپردہ پائے جانے والے اختلافات سے انھيں فائدہ ہو گا۔جبكہ اس سياسي بحران كے پيدا كرنے ميں فوج اور حكومت دونوں برابر شريك تھے۔ بنابر ايں پاكستان عوامي تحريك اور تحريك انصاف كي مخالفت كسي حد تك فوج كي وجہ سے تھي اس لئے كہ جس زور و شور سے ان جماعتوں نے حكومت كے خلاف تحريك شروع كي اور جس طريقے سے تحريك ختم ہوئي اور انقلاب كا نعرہ دم توڑ گيا اس سے يوں دكھائي ديتا ہے كہ اس كے پيچھے فوج كا ہاتھ تھا۔ دوسرے لفظوں ميں اس ملك ميں نہ علامہ طاہرالقادري اور نہ عمران خان حتي دوسري جماعتيں بھي فوج كي درپردہ حمايت كے بغير سياسي ميدان ميں كوئي اہم كردار ادا نہيں كر سكتيں۔ اس رو سے علامہ طاہرالقادري كو چاہئے كہ وہ اپنے حاميوں ، بہي خواہوں ، مداحوں اور كاركنوں كو جو مذھبي افكار و نظريات ركھنے كي بنياد پر ان كي حمايت كرتے ہيں اور ان كي آواز پر لبيك كہتے ہيں اپني سياست كي وجہ سے انھيں اپنےسے دور نہ كريں۔