الوقت - امریکا میں صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران، ایران کا موضوع ہمیشہ سے ایک چیلنج بھرے مسئلہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
انتخاتی مہم کے دوران ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ پر ایران کے سامنے پائمردی کا مظاہرہ نہ کرنے اور تہران کے سامنے سر تسلیم خم کرنے تک کا الزام لگا دیا تھا جبکہ ہلیری کلنٹن نے ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کی حمایت کرتے ہوئے تہران سے مقابلے پر زور دیا تھا اور انہوں نے ایران کو دہشت گرد گروہ داعش کے زمرے میں کر دیا تھا۔
یہ سلسلے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور وائٹ ہاؤس میں ان کے داخل ہونے کے بعد بھی جاری ہے۔ امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو انتخابات میں رپبلكنس سے ہٹ کر پالیسی اختیار کی تھی لیکن انہوں نے پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ایران کے خلاف اپنے حملے تیز کر دیئے حتی جارج بش کے دور کا وہ وقت بھی یاد آ گیا جب انہوں نے کہا تھا کہ ایران پر حملے سمیت سارے آپشن میز پر موجود ہیں۔ یہاں پر بھی ٹرمپ نے اپنے ماضی کے سربراہوں کی پیروی کرتے ہوئے امریکی تاریخ کو دہرا دیا۔
دوسری جانب امریکا کے نئے صدر کے بیان سے اسرائیل اور سعودی عرب جیسی ایران مخالف حکومتوں کے لئے پروپیگینڈے کرنے اور خوش ہونے کا موقع مل گیا۔ سعودی عرب کی وزارت دفاع کے مشیر اور یمن مخالف فوجی اتحاد کے ترجمان احمد عسیری نے کچھ ماہ خاموش رہنے کے بعد، چند روز قبل ایران مخالف بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک امریکا کے ساتھ اسٹراٹیجک لحاظ سے مکمل طور پر ہماہنگ ہے اور اسے امید ہے کہ رواں سال کے دوران ایران کے خلاف دباؤ میں مزید اضافہ کرے گا۔
امریکا میں انتخابات میں کامیابی کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے حوالے سے سخت پالیسیاں اختیار کیں یہی سبب تھا کہ ریاض کے حکام مشرق وسطی کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے واضح ہو جانے تک مکمل طور کان میں تیل ڈالے بیٹھے رہے لیکن جیسے ہی واشنگٹن کا ایران مخالف پروگرام واضح ہوا، سعودی عرب نے ايرانوفوبيا کی اپنی پالیسیوں کو وسیع کر دیا۔
اسی طرح صیہونی حکومت بھی جو اوباما انتظامیہ کے دور میں ایران کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں سے بہت پریشان تھی، ٹرمپ کے اقتدار میں پہنچنے اور برطانیہ میں اسرائیل کی حامی حکومت کے بر سراقتدار آنے سے بہت زیادہ پرامید ہو گئی ہے تاکہ وہ تہران کے خلاف محاذ قائم کر سکے۔ اسی تناظر میں بحرین کے دارالحکومت منامہ میں خلیج فارس تعاون کونسل کے اجلاس کے اختتام پر برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے کے بیان نے تل ابیب کو اس محاذ کے وجود میں آنے کے تئیں مزید پرامید کر دیا ہے۔
تھریسا مے نے منامہ میں سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ ہم خلیج فارس تعاون کونسل میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک اسٹراٹیجک شراکت کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ علاقے میں ایران کے سنگین خطرات سے مقابلہ کیا جائے۔ ایران سمیت سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی کے حکم پر لندن کے موقف کے سامنے نہ آنے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تہران کے خلاف برطانیہ اور امریکا ایک دوسرے کے ساتھ ہو چکے ہیں۔
لندن کے دورے سے پہلے اسرائیل کے وزیر اعظم بنيامين نیتن ياہو نے جو بیان دیا تھا سے پتا چلتا ہے کہ تہران کے خلاف واشنگٹن، لندن اور تل ابیب جمع ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی اور سعودی حکام کو یہ پتا ہے کہ ایران پر فوجی حملے کا امکان، ایران کی جانب سے کرارا جواب دئے جانے کی وجہ سے صفر ہے لیکن وہ اس بات سے خوش ہیں کہ ایران کے خلاف امریکا کی قیادت میں عالمی برادری اور علاقے کے عوام پھر جمع ہو رہے ہیں۔
اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اوباما کے دور اقتدار میں اقتصادی اور فوجی شعبے میں بین الاقوامی پابندیوں کے بارے میں مختلف قرارداد تو منظور ہوئیں لیکن دونوں فریق کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے کسی حد تک ایران کے خلاف عالمی نظام کے دباؤ کم ہوئے تھے لیکن ٹرمپ کے اقتدار میں پہنچتے ہی سب کچھ بدل گیا۔ اسی لئے کہا جا سکتا ہے کہ جب تک ایران کے خلاف امریکا اور اس کے کچھ اتحادیوں کی یکطرفہ پابندیوں، میڈیا اور ان کی پالیسیوں کے ذریعے دباؤ بڑھتا رہے گا، تب تک اسرائیل اور سعودی عرب کو مشرق وسطی میں اپنے جرائم اور دہشت گردوں کی مدد پر پردہ ڈالنے کا موقع ملتا رہے گا۔
بہرحال اس ہدف کے عملی ہونے کی صورت میں ايرانوفوبيا کے علاوہ خلیج فارس کے ممالک کے لئے امریکا اور برطانیہ کے ہتھیاروں کی منڈی کا راستہ کھل جائے گا اور علاقے میں تل ابیب اور ریاض کی پیش نظر پالیسیوں سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے راہ ہموار ہو جائے گی۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ کے ساتھ اسرائیل کے علاوہ سعودی عرب بھی ایران کے خلاف دباؤ بڑھانے کے محاذ میں شامل ہو گیا ہے تاکہ ایران کے میزائل تجربے کو بہانہ بنا کر تہران پر دباؤ ڈال سکے۔