الوقت - دنیائے عرب کے مشہور تجزیہ نگار نے سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے حمایت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ سعودیوں نے امریکا کے دہشت گردانہ حملے کئے ہیں نہ کہ ان سات مسلم ممالک کے شہریوں نے۔
عبد الباری عطوان نے رای الیوم میں اپنے مقالے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے اس فیصلے کا خیر مقدم کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے قطعی امید نہیں تھی کہ سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے ٹرمپ کے نسل پرستانہ فیصلے کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے استقبال کیا جائے گا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک میں اس فیصلے کے خلاف وسیع مظاہرے ہو رہے ہیں اور امریکا کے قانون داں اور رکن پارلیمنٹ نے متعدد ریاستوں میں ٹرمپ کے فیصلے کو چیلنج کر دیا اور ٹرمپ کے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کے 90 ملازمین نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یقینی طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس تعلق سے ہماہنگی کی ہے اور یہ موقف، ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی فرمانروا سلمان بن عبد العزیز اور ابو ظبی کے ولیعہد محمد بن زاید اور متحدہ عرب امارات کی مسلح فوج کے سربراہ کے ساتھ ہوئی ٹیلیفونی گفتگو کے بعد اختیار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے وزیر توانائی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے جو موقف اختیار کیا اس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کو اپنی قوم کی حفاظت کا حق ہے اور خود کے خلاف پیدا ہونے والے خطروں کا سد باب کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات بہت مضبوط اور عمیق ہیں اور ان کے پاس اقتصادی اور اسٹرٹیجک مسائل کے تعلق سے مشترکہ تعاون کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
دوسرا صدمہ بھی پہلے سے کم نہیں تھا جو متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے بیان سے پہنچا۔