الوقت - امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلم ممالک کے شہریوں کے ملک میں داخلے پر پابندی کے حکم پر دستخط کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ یہ ممالک یمن، صومالیہ، عراق، ایران، شام، سوڈان، لیبیا ہیں۔
امریکی میڈیا میں لیک ہوئے صدر کے ایگزیکٹو آرڈر سے یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں ۔ ٹرمپ نے بدھ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ مسلمانوں پر پابندی نہیں ہے، یہ وہ ممالک ہیں جو دہشت گردی کا شکار ہیں اور ان ممالک سے آئے لوگ مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقریبا 20 لاکھ پناہ گزینوں کو پناہ دے کر یورپی ممالک نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور وہاں جو ہو رہا ہے وہ تباہ کن ہے۔
خبروں کے مطابق، شام سے پناہ گزینوں کے آنے پر مکمل پابندی لگ سکتی ہے جبکہ دیگر چھ ممالک کے شہریوں پر 30 سے 120 دنوں کی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ امریکہ میں پناہ گزینوں کو قبول کرنے کی سالانہ تعداد بھی نصف کی جا سکتی ہے۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما نے 2017 میں ایک لاکھ پناہ گزینوں کے داخلے کی اجازت دی تھی تاہم اب یہ تعداد 50 ہزار سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ مشتبہ دہشت گردوں اور پناہ گزینوں کے درمیان فرق کرنے کے ویزا انٹرویو پروگرام کو بھی غیر معینہ مدت کے لئے معطل کر سکتی ہے تاہم سفارتی پاسپورٹ، نیٹو کے ویزا یا سی -2 نوعیت کے ویزا رکھنے والوں کو اس کی رعایت ہوگی۔
دوسری جانب امریکی وزارت دفاع پینٹاگن نے شام اور اس کے سرحدی ملکوں میں سیف زون بنانے کی تیاری کی ہے جہاں پناہ گزین پناہ لے سکتے ہیں۔ اسے پناہ گزین مخالف ہونے کی تنقید سے بچنے کا قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ مسلم مخالف اقدامات کرکے داعش کا حربہ بن رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے داعش کو لوگوں کو اشتعال دلانے کا ہتھیار ملے گا۔ امریکا کے انسداد دہشت گردی مرکز کے سابق ڈائریکٹر مائکل اولسن نے کہا کہ پناہ گزینوں کو روکنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ۔ افغانستان اور عراق میں سابق امریکی سفیر ریان کروکر نے کہا کہ یہ فیصلہ بیرون ملک امریکیوں کے لئے خطرہ پیدا کر دے گا۔