الوقت - آستانہ اجلاس میں بحران شام کے خاتمے کی کوشش کی گئی تاکہ نئے شام کی بنیاد رکھی جا سکے لیکن اجلاس شرکاء اور مذاکرات کے حامی ممالک کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان میں ہر ایک نئے شام کے اپنے حساب سے وجود میں لانا چاہتا ہے۔ آخرکار دو روزہ آستانہ اجلاس ایک بیان جاری کرکے ختم ہو گیا۔ مذاکرات تو ختم ہوگئے لیکن فریقین کے درمیان کسی خاص موضوع پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ مندرجہ ذیل نکات سے کسی حد تک شام کے سیکورٹی مسائل کے معمے کو سمجھا جا سکتا ہے۔
1- آستانہ مذاکرات، ایران، روس اور ترکی کے درمیان ماسکو میں کئی ہفتوں سے جاری مذاکرات کا نتیجہ تھے جو اپنے آپ میں ایک بہت بڑی کوشش اور پہل تھی کیونکہ اس سے پہلے تک شام میں سرگرم مسلح مخالفین کے سب سے بڑے اور مؤثر حامی کی حیثت سے ترک حکومت شام کی حکومت سے مذاکرات کے لئے تیار ہی نہیں تھی اور اب وہ ترک حکومت کی نمائندگی میں ایک مذاکرات کار ٹیم آستانہ روانہ کرنے پر تیار ہوگئی ہے۔ دوسری جانب شام کے غیر مسلح مخالفین بھی شامی مذاکرات کاروں سے مذاکرات کے لئے تیار ہوگئے۔ اس مذاکرات میں شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی میستورا اور قزاقستان میں امریکا کے سفیر جارج کرول نے بھی شرکت کی۔ امریکا اور کے اتحادی شام کی حکومت کو باضابطہ قبول نہیں کرتے، مذاکرات میں شرکت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ شام کی حکومت کو باضابطہ قبول کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں لیکن کیوں ؟
2- اس کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں۔ آستانہ مذاکرات حلب میں فوج اور مزاحمتی گروہوں کی عظیم کامیابیوں کا ثمرہ ہے۔ جنگ حلب کی کچھ خصوصیات ہیں۔ اس مہم میں مزاحمتی گروہوں نے شام میں سرگرم سب سے طاقتور اور سب سے مضبوط گروہ نصرہ فرنٹ سے جس نے اپنا نام تبدیل کرکے فتح الشام محاذ رکھ لیا ہے، جنگ کی اور دو مہینے تک جاری اس آپریشن میں حلب کے مشرقی اور مرکزی علاقوں کو دہشت گردوں کے وجود سے پاک کر دیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ نصرہ فرنٹ کے ایک سرغنہ کے بقول، ترکی، قطر اور سعودی عرب نے حلب کی سرنگونی کو روکنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کی اور حلب نے تو ان دو مہینے میں چار کروڑ ڈالر تک خرچ کر دیئے۔
3- آستانہ کے سیاسی مذاکرات میں شام کے تقریبا 300 مسلح مخالف گروہوں میں سے صرف 14 ہی شریک ہوئے جن میں فری سیرین آرمی، فلیق الشام، احرار الشام، الثوار لاہل الشام، جیش المجاہدین، جیش ادلب اور جبہۃ الشامیہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یعنی شام کے مسلح مخالفین میں سے صرف 20 فیصد نے ہی شام کے مذاکرات میں نمائندگی کی تھی۔ ان گروہوں نے خود کو داخلی اور غیر ملکی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔
4 - ترکی کا موقف اور آستانہ اجلاس میں اس کی موجودگی بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ترکی اس سے پہلے تک اقتدار سے بشار اسد کو ہٹانے پر تاکید کرتا رہا اور اب اسی نے مسلح افراد کو مذاکرات کی میز پر آنے پر ترغیب دلائی ہے جو بقول فتح الشام اقتدار میں بشار اسد کی بقا پر براہ راست یا بلا واسطہ موافقت کے معنی میں ہے۔
5 - شام کی حکومت اور مسلح مخالفین کے درمیان سیاسی عمل میں بظاہر قطر اور سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطر اخوان المسلمین کی جانب رجحان رکھتا ہے اور ترکی کی حکمراں جماعت کے ساتھ اس کے اسٹراٹیجک تعلقات ہیں اور چونکہ قطر، فری سیرین آرمی کی مالی مدد کرتا ہے اور یہ گروہ آستانہ مذاکرات میں شریک ہے اسی لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قطر بھی دہشت گردوں اور ترکی کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہے۔
6 - شام کے سیاسی مذاکرات کے مستقبل کے تعلق سے سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ مغرب شام کے سیاسی مذاکرات کو اپنے زیر سایہ کر سکتا ہے کیونکہ شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی مستورا نے کہا کہ آستانہ مذاکرات، جنیوا مذاکرات کا مقدمہ ہونا چاہئے۔