الوقت - صیہونی حکومت کے نائب سربراہ نے حال ہی میں برسلز میں نیٹو کے موقع پر مصر، اردن، بحرین، کویت، مراکش اور ٹیونس سمیت کچھ عرب ممالک کے فوجی سربراہوں سے ملاقات کی ہے۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارونوت نے رپورٹ دی ہے کہ گولان نے ترکی کی فوج کے سربراہ حلوصی آکار سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔ صیہونی فوج کے ترجمان نے بھی عرب فوج کے سربراہوں اور صیہونی حکومت کے فوج سربراہ کی ملاقات کی تائید کی ہے۔ فریق کے درمیان یمن کے عوام کے خلاف سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے سیکورٹی تعاون، بحرین کے عوام کے خلاف بحرین کے ساتھ اسرائیل کا تعاون، فلسطینی عوام کے خلاف اردن اور اسرائیل کے درمیان سیکورٹی تعاون اور فلسطینی عوام کے خلاف مصر اور اسرائیل کے سیکورٹی تعاون جیسے تعاون کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔
دنیائے عرب اپنے انقلابی رہنماؤں کے ہمراہ قاہرہ، طرابلس، بغداد اور دمشق کی سڑکوں پر اسرائیل مخالف اپنے مواقف کا اظہار کر رہی ہے اور صیہونی حکومت کےساتھ جد جہد کے فرنٹ لائن پر موجود ہے۔ کچھ عشروں سے متعدد داخلی اور خارجی اسباب کی بنا پر اپنا اہم کردار ادا کرنے میں ناتواں ہوگئے ہیں۔
در اصل 1948،1956،1967 اور 1973 کی عرب اور اسرائیل کی جنگوں کے ماضی پر نظر ڈالنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ عرب ممالک اس وقت، صیہونی حکومت اور علاقے میں اس کی موجودگی کے بارے میں یکساں موقف رکھتے تھے اور تمام عرب ممالک اسرائیل کے خلاف متتحد تھے لیکن آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ اس سیکورٹی اور فوجی تصادم کی اہمیت کم ہوتی گئی اور موجود وقت میں یہ تعاون اور علاقے کی کچھ قوں کے مفاد کے خلاف آگے بڑھنے لگا۔ در اصل جہاں کہیں بھی عوامی مطالبات عرب بادشاہوں کی حکومت کی بقا کے لئے خطرہ تصور ہونے لگا یا یہ جب یہ ممالک اپنے عوام کے مطالبات کی سرکوبی کرتے ہیں، تو یہ اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی تعاون کی جانب حرکت کرتی ہیں۔ در حقیقت ان ممالک اور اسرائیل کے سامنے کچھ مشترک مواقع اور خطر ہیں جن کی وجہ سے یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی تعاون پر مجبور ہیں :
1 - خطرے :
(الف ) داخلی بحران :
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی برقراری خاص طور پر فوجی اور خفیہ تعاون کے لئے عرب حکومت کی اصل تشویش میں سے ایک ملک کا داخلی بحران ہے جس نے حکومتوں کی توانائی کو اس میں مشغول کر دیا ہے۔ عرب عوام اپنے حکمرانوں کے قانونی جواز پر ہمیشہ سے اعتراض کرتے رہیں ہیں اسی لئے عرب حکومت عوامی طاقت پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی اور فوجی تعاون کی جانب بڑھ رہی ہے۔
(ب) علاقائی کشیدگي :
دوسرا خطرہ جس نے دنیائے عرب کو خود میں مصروف کر رکھا ہے وہ علاقائی سطح پر پائی جانے والی کشیدگي اور بحران ہے جو عرب حکومتوں کے باقی رکھنے کے لئے اہم خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ عرب حکومتیں ان بحران پر کنٹرول کرنے کی توانائی نہیں رکھتی ہیں اسی لئے وہ صیہونی حکومت کے ساتھ سیکورٹی اور خفیہ تعاون کے راستے پر نکل گئی ہیں۔
2 - مواقع :
(الف) ایران کو کنٹرول کرنا :
کچھ عرب حکومتوں اور ان میں سر فہرست سعودی عرب کی سب سے بڑی تشویش ایران کو کنٹرول کرنے کی ہے جس کی وجہ سے وہ اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی اور فوجی تعاون کے لئے تیار ہوگئی ہیں۔ خاص طور پر 11 ستمبر کے حملے اور عراق کے غاصبانہ قبضے کے بعد عرب دنیا میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافے کا مقدمہ فراہم ہوا۔ عرب ممالک نے سعودی عرب کی سربراہی میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے ایرانوفوبیا اور شیعہ فوبیا کو ہوا دینے کی کوشش کی۔
(ب) امریکا کی حکمت عملی میں اہم کردار :
امریکا کی مشرق وسطی کی پالیسی میں توسیع خاص طور پر مغربی ایشیا کی جانب نیٹو کی توسیع نے عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں توسیع کے راستے پر گامزن کر دیا۔