الوقت - قاہرہ حکومت نے گزشتہ سال مارچ کے مہینے کے آخر میں ریاض کے ساتھ آبی سرحد کا معاہدہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ تيران اور صنافر اسٹراٹیجک جزائر سعودی عرب کی آبی سرحد میں واقع ہیں۔
قاہرہ کے اس اعلان پر مصر کے سیاسی، میڈیا اور سول حلقوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور عوام کا غصہ پھوٹ پڑا۔ مصری عوام نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے دارالحکومت سمیت ملک کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے کئے۔ ان مظاہروں کے دوران مصر کی پولیس نے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا اور تقریبا 200 کارکنوں اور مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
اس معاہدے کا جائزہ لینے کے بعد مصر کے سپریم کورٹ نے مئی کے مہینے میں ان جزائر کی سعودی عرب منتقلی کے حکومت کے فیصلے کو غیر اہم قرار دیا لیکن السیسی حکومت نے اس منصوبے کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ روانہ کر دیا جس پر سپریم کورٹ دوبارہ مداخلت پر مجبور ہوا۔
بحیرہ احمر میں واقع یہ دونوں جزائر اس لئے اہم ہیں کیونکہ ان جزائر سے اسرائیل خلیج عقبہ سے آزاد آبی علاقے تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی لئے ان جزائر پر جس ملک کا بھی قبضہ ہوگا وہ اقتصادی اور فوجی نقطہ نظر سے اسرائیل کی سیکورٹی کو متاثر کر سکتا ہے۔
اسی تناظر میں مصر کے اندر اس مسئلے کے قانونی جائزے سے پہلے ہی مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے سعودی عرب سے بھاری مالی اور تیل کی مدد حاصل کر لی خاص طور پر یہ کہ ریاض نے ملک کے پہلے منتخب صدر کی مخالفت کے سبب جو اخوان المسلمین کے نظریات رکھتے تھے، السیسی کی فوجی بغاوت کی حمایت کی تھی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ کچھ مبصرین تيران اور صنافر جزائر کو سعودی عرب کے حوالے کئے جانے کے بارے میں سپریم کورٹ اور السیسی کی حکومت کے درمیان اختلافات کو السیسی کی ہوشیاری بھری چالوں سے تعبیر کر رہیں تاکہ اس طرح وہ سعودی عرب سے مختلف اقتصادی امتیاز حاصل کر سکیں۔ سعودی عرب اور مصر کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بنیاد پر سعودی عرب اگلے پانچ سال تک مصر کو 23 ارب ڈالر کے تیل فروخت کرے گا لیکن گزشتہ تین ماہ سے زیادہ عرصے سے سعودی عرب کی ارامكو تیل کمپنی قاہرہ کو تیل برآمد نہیں کر رہی ہے، السیسی نے جزائر کے مالكانہ حق کا مسئلہ چھیڑ دیا ہے۔
اسی بنیاد پر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ تيران اور صنافر جزائر کی سعودی عرب منتقلی کے مسئلے میں مصر کے سپریم کورٹ کی مداخلت سے کھیل طویل کھنچ سکتا ہے اور اس سے قاہرہ کے پاس سعودی عرب سے جوڑ توڑ کرنے اور زیادہ سے زیادہ امتیازات حاصل کرنے کا موقع فراہم ہو گیا ہے۔
دوسری جانب مصر کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے مصری عوام کو یہ بھی پیغام ملتا ہے کہ ملک کی عدلیہ خود مختار اور آزاد ہے اور یہ السیسی کی حکومت میں جمہوریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ در اصل جنرل السیسی کا یہ ارادہ ہے کہ وہ ریاض کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے خلاف ملک کے اندر پائے جانے والے اعتراض کو بڑا دکھا کر سعودی عرب کو مزید امتیازات دینے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
دراصل مصر کے صدر اسرائیل کے باقی رہنے اور اس کی حفاظت میں مذکورہ جزائر کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اگر سعودی عرب مصر کو اس طرح کے امتیازات نہیں دیتا تو اس پر تل ابیب کا دباؤ پڑ سکتا ہے کیونکہ موجودہ وقت میں سعودی عرب یمن، عراق اور شام کی جنگوں میں گرفتار ہونے کی وجہ سے شدید اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ مصر کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں السیسی کی نااہلی اور ملک کے اقتصادی مسائل ان کی حکومت کو دیوالیہ پن کے خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ ان حالات میں سعودی عرب مصر میں اپنی اتحادی حکومت کو بچانے کے لئے میدان میں کود پڑے گا اور یہ مدد کویت اور متحدہ عرب امارات سمیت سعودی عرب کے دوسرے اتحادیوں کے ذریعے دی جا سکتی ہے، خاص طور ان خبروں کے بعد کہ قاہرہ تہران سے قریب ہو رہا ہے۔ البتہ مصر کی جانب سے ایران سے قریب ہونے کے اقدامات کو سعودی عرب سنگین خطرہ نہیں سمجھ رہا ہے کیونکہ مصر اور سعودی عرب کے درمیان شدید اختلافات کے باوجود مصری یہ جانتے ہیں کہ ایران سے ہر قسم کا تعلق، ریاض محاذ سے تعلق ختم کرنے کے معنی میں ہوگا۔