الوقت - عراق کے سابق وزیر اعظم نوری مالکی نے 3 جنوری کو ایران کا دورہ کیا۔ ان کا دورہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حمل تھا۔ نوری مالکی نے ایران کا دورہ ایسی حالت میں کیا کہ علاقے میں اہم تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ حلب کی آزادی جیسی تبدیلیاں جس نے علاقے کے تمام تر اندازوں کو اسلامی جہموریہ ایران کی مرکزیت والے مزاحمتی محاذ کے مفاد میں موڑ دیا۔ اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوری مالکی کے دورہ ایران کا پروگرام پہلے سے معین تھا اور موجودہ وقت میں یہ اہم دورہ ایسے حالات میں انجام پایا ہے کہ علاقے کے حالات مثبت اور امید بخش ہیں خاص طور پر حلب کی آزادی اور اس کامیابی کے موصل پر مرتب ہونے والے اثرات کے مد نظر۔
اسی طرح حلب کی آزادی اور دہشت گردوں کے انخلاء کے بعد عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے موصل کی آزادی کی مہم کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ یہ اقدام بھی حلب کی آزادی سے بلند ہونے والے حوصلوں سے متاثر تھا اور اسی کے ساتھ شام اور عراق میں مزاحمت کے محاذ کے درمیان زیادہ ہماہنگی سے بھی متاثرتھا۔ خاص طور پر یہ کہ عراق بھی مزاحمت کے محاذ کی جانب رجحان رکھتا اور ایران، شام، لبنان اور فلسطین کا ہمنوا ہے۔
موصل سٹی کی آزادی کے آپریشن کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے علاوہ عراق کے سابق وزیر اعظم نوری مالکی کے دورہ ایران کا دوسرا سبب عراق کے بارلیمانی انتخابات ہیں۔ موجودہ وقت میں نوری مالکی عراق کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جو ملک کی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت باقی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر چہ نوری مالکی نے یہ صاف کہہ دیا ہے کہ وہ تیسری بار وزارت عظمی کے لئے کوشش نہیں کر رہے ہیں۔
در حقیقت عراق کے سابق وزیر اعظم نوری مالکی اس موضوع سے آگاہ ہیں کہ جب آپ کے پاس ملک کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہو تو آپ ان تمام منصوبوں اور اقدامات کو ناکام بنا سکتے ہیں جو ملک کے مفاد کے برخلاف اور ایران اور عراق کی نزديکی کی راہ میں روکاٹ بنتے ہیں اور ان منصوبوں کو پارلیمنٹ میں روکا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب یہ کہا جا سکتا ہے کہ نوری مالکی نے وزارت عظمی کی خواہش شیعوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کے لئے نہیں کی۔ بہرحال عراق کے صدر دھڑکے کے بعض اراکین یہ نہیں چاہتے کہ نوری مالکی تیسری بار ملک کے وزیر اعظم بنیں اور نوری مالکی بھی اس موضوع سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کی ترجیح ہے کہ ان کے اتحاد میں اتحاد و یکجہتی برقرار رہے اور نظریات میں اختلافات، شگاف کا سبب نہ بنے۔
صدر دھڑے کے سربراہ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اگر نوری مالکی تیسری بار وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھے تو وہ بغداد میں پھر سے مظاہرے شروع کر دیں گے۔ اسی لئے نوری مالکی کی جانب سے وزارت عظمی سے انکار ایک عاقلانہ اور منطقی قدم سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں خود ہی اس موضوع کی تصدیق کی تھی۔ نوری مالکی کا یہ قدم ایران سے ہماہنگ اور اس کے اہداف کے تحت ہے جو نوری مالکی اور صدر دھڑے کو ایک دوسرے سے نزدیک کرنے اور عراقی شیعوں کو متحد اور ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ نوری مالکی ہمیشہ سے ایران سے زبردست حامی رہے ہیں اور اسی لئے ایران نے بھی ان کی ہمیشہ سے حمایت کی ہے کیونکہ ان کی کارکردگی ہمیشہ سے ایران کی توجہ کا سبب رہی ہے۔