الوقت - یمن میں برسوں سے یہودی مذہب کے سیکڑوں افراد رہتے ہیں۔ یہ افراد زیادہ تر عمران کے ریدہ اور صعدہ کے آل سالم علاقے میں رہتے ہیں جبکہ دار الحکومت صنعا میں ان کا پورا ایک محلہ ہے۔ یہ محلے یہودیوں کی آبادی کی وجہ سے محلہ یہود کے نام سے مشہور ہے اور یہاں کے رہائیشی یہودی تجارت اور ٹکنالوجی میں مشہور ہیں۔
ابھی حال ہی میں خاص طور پر 2016 کے وسط میں یہاں کے رہائشی کچھ یہودی خفیہ طریقہ سے مقبوضہ فلسطین کی جانب مہاجرت کر گئے۔ ہجرت کرنے والے یہودی اپنے ساتھ توریت کے نادر نسخے لے گئے۔ بعض یمنی افراد کا کہنا ہے کہ مذکورہ نسخے یمن کی ثقافت کی خاص وراثت ہے جبکہ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہ یہودیوں کی خاص وراثت تھی جسے وہ اپنے ساتھ لے گئے تاہم اس میں سب سے اہم موضوع ان کی خفیہ ہجرت ہے۔ جب یہ وفد صیہونی حکومت کے دارالحکومت تل ابیب پہنچا تو صیہونی حکومت کے وزیر اعظم سمیت متعدد اعلی صیہونی حکام نے ان پر پر جوش استقبال کیا۔
یمن کے یہودی باشندے یوسف یحیی نے جو اس وقت صنعا میں زندگی بسر کر رہے ہیں، الوقت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ہم کو یمن ترک کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی لیکن ہم یمن کے علاوہ کہیں اور نہیں رہ سکتے۔ ہم یمن میں پیدا ہوئے اور یہی ہماری تربیت ہوئی۔ ہم کو پیسوں کے مقابلے میں ہرگز قبول نہیں ہے۔
یحیی یوسف کا کہنا تھا کہ ہم سے کچھ افراد ملک پر سعودی عرب کے حملوں کی وجہ سے ملک چھوڑ کراسرائیل چلے گئے لیکن ان کا حال دھوبی کے اس کتے کا ہے جو نہ گھر کا ہے اور نہ ہی گھاٹ کا۔ یمن پر سعودی عرب کے حملوں کے بارے میں جب ہم نے ان کا موقف پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم یمن پر سعودی عرب کی سربراہی میں بنے عرب اتحاد کے حملوں کی مذمت کرتے ہیں، ہم تمام یمنی شہریوں کو اس غیر انسانی حملے سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ سعودی عرب کے حملوں نے یمن کی خوبصورتی تباہ کر دی۔ میری نظر میں یمن پر سعودی عرب کے حملے، فلسطینی قوم کے خلاف صیہونی حکومت کے حملوں سے کم نہیں ہے۔
یحیی یوسف کا کہنا ہے کہ ہمارا صیہونی حکومت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، ہم صیہونی حکومت سے برات کرتے ہیں۔ صیہونی حکومت یہودی مذہب کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یہودی مذہب قتل اور عصمت کو حرام قرار دیتا ہے، صحیح ہے ہم کو کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا لیکن ہم کو نقصان نہیں ہے، ہم یمن کا سودا نہیں کر سکتے اور اپنی نسل کی اس قانون کے تحت تربیت نہیں کر سکتے۔
یہودی مذہب کے امور کے ماہر احمد المکش نے تاکید کی کہ پہلی بار یہ خبر منظر عام پر آئی ہے کہ بعض یہودی خاندان مہاجرت کرکے اسرائیل چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی امریکی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر یمنی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر سازش کر رہی ہے۔ وہ یمن سے زیادہ سے زیادہ یہودیوں کی نقل مکانی کے خواہشمند ہیں۔ نقل مکانی کے لئے ہر یہودی کے مقابلے میں حکومت کے کارندوں کو کو پچاس ہزار ڈالر سے زیادہ رقم بطور رشوت دی گئی۔ اس کے بعد ان کی یمن سے منتقلی ہوئی۔ اس کے بعد یمن چھوڑنے کے لئے اسرائیل نے ہر شخص کو 70 ہزار ڈالر کی رقم دی۔
احمد المکش کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی یمن سے یہودیوں کی منتقلی کے لئے بے پناہ دولت خرچ کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن کی سابق حکومت کے کچھ کارندے اسرائیل سے خفیہ تعاون کر رہے ہیں۔