الوقت - امریکی کانگریس کے سابق رکن ران پال نے دوسرے ممالک خاص طور پر شام کے داخلی امور میں واشنگٹن کی مداخلت کی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایران، روس اور ترکی بحران شام کے اختتام میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ امریکی کانگریس کے سابق رکن اور امن و ترقی کے لئے ران پال ادارے کے سربراہ ران پال نے اپنے مقالے میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بحران شام میں مداخلت ختم کرے۔ ران پال 1997 سے 2013 تک امریکی ایوان نمائندگان میں رپیبلکن پارٹی کے سینیٹر اور اس سے پہلے صوبائی قانون ساز تھے۔ وہ تین بار 1988، 2008 اور 2012 میں امریکا کے صدارتی انتخابات میں امیدوار بھی تھے۔
ران پال امریکی حکومت کی خارجہ اور مالی پالیسیوں خاص طور پر مشرق وسطی کے ممالک جیسے غیر ملکوں میں مداخلت پسندانہ اور جنگ پسندانہ پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں۔ وہ اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ آخرکار شام میں جنگ بندی کے لئے ایران، روس اور ترکی کے وزرائے خارجہ کی نشت منعقد ہوئی اور اب تک میری نظر میں جنگ بندی جاری ہے۔
اس خاص جنگ بندی میں کیا چیزیں مہم ہیں ؟ اس جنگ بندی کے منصوبے میں امریکی حکومت کو شریک نہیں کیا اور واشنگٹن کی موافقت کے بغیر ہی جنگ بندی کا نفاذ ہو گیا۔
در حقیقت شام میں دہشت گرد گروہوں سے اعتدال پسند گروہوں کو جدا کرنے کے مسئلے پر واشنگٹن کے انکار اور شام میں حکومت کی تبدیلی پر اس کے اصرار کی وہ سے ایران، روس اور ترکی، شام کے لئے اپنے مد نظر راہ حل کی تلاش پر مجبور ہوگئے۔ انہوں شام کی حکومت اور اسی طرح زیادہ تر مخالفین کو جنگ بندی پر آمادہ کر لیا جبکہ امریکا کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
نیو کنزویٹو اور انسان دوستانہ مداخلت پسند افراد ہمیشہ ہم سے کہتے تھے کہ امریکا کو دنیا کے ہر بحران میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو کوئی بھی بحران حل نہیں ہو سکتا۔ وہ کہتے تھے کہ ہماری مداخلت کے بغیر دنیا تباہ و برباد ہو جائے گي۔
حقیقت یہ ہے کہ ان بحرانوں کے حل کے لئے امریکا کی زیادہ تر مداخلتیں، بحران کے مستقل ہونے کا سبب بنیں۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان ساٹھ برسوں سے جاری جنگ کی صورتحال پر ایک نظر ڈالئے۔ کیا امریکی مداخلت اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب رہی؟ در حقیقت اسرائیل – فلسطین اختلافات کے حل میں ہماری عشروں کی مداخلت کا کیا نتیجہ برآمد ہوا؟ کیا ہم اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان صلح میں کامیاب رہے؟ جبکہ ہم نے اربوں ڈالر رشوت دینے اور مداخلت کے لئے خرچ کرے۔
دوسرے کے داخلی امور میں مداخلت نہ کرنے سے امریکی کے اعتبار و اعتماد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ امریکا کی مداخلت، بمباری اور ڈرون حملے اور حکومتوں کی تبدیلی، ہمارے اعتماد اور اعتبار کو ٹھیس پہنچا رہی ہے۔ شام میں ہماری مداخلت، اس میں جنگ کے جاری رہنے کا سبب بنی۔ ایسی حالت میں کہ جب شامی اور روسی چار سال سے القاعدہ کے محاصرے میں موجود مشرقی حلب کو آزاد کرانے میں کوشاں تھے، اوباما انتظامیہ جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ایسی حالت میں کہ جب شامی مشرقی حلب میں اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں، امریکی وزارت خارجہ نے ہم سے کہا کہ روسی اور شامی حکومت عام شہریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔
انہوں نے امریکی میڈیا کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے رای عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، وہ نہیں چاہتے تھے کہ امریکی عوام حقیقت سے آشنا ہوں۔