الوقت - 25 فروری 2011 سے شام کا شروع ہونے والا داخلی بحران، اپنی صدی کا سب سے پیچیدہ ترین بحران شمار ہوتا ہے اور اس نے علاقائی اور غیری ملکی طاقتوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔ شام کی حالیہ تبدیلیاں جس پر عالمی سطح پر توجہ دی جا رہی ہے وہ روس اور ترکی کی قیادت میں جنگ بندی کے نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ انقرہ اور ماسکو کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بنیاد پر 30 دسمبر رات 12 بجے کے بعد سے پورے شام میں جنگ بندی کا نفاذ کر دیا گیا۔ جنگ بندی کے نفاذ کا ظاہری ہدف تو یہ ہے کہ جنگ بندی سے استفادہ کرتے ہوئے جنگ زدہ علاقوں میں محاصرے میں گھرے عوام کو انسان دوستانہ امداد پہنچانا اور پھر بر سر پیکار فریقوں کے درمیان سیاسی راہ حل کی تلاش کے لئے مذاکرات شروع کرنا ہے۔
اس بات پر توجہ دیئے بغیر کے شام میں جنگ بندی کا نفاذ عملی جامہ پہن پائے گا یا نہں، حالیہ سمجھوتے کو شام کی سیاسی تبدیلیوں اور مشرق وسطی کے مستقبل کے لئے اہم سرمیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ شام میں جنگ بندی کا نفاذ نیز ماسکو اور انقرہ کے درمیان ہونے والی مفاہمت بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ مجموعی طور پر شام میں جنگ بندی کا نفاذ، پوتین اور اردوغان کی سیاسی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ آج ہم اسی موضوع چند پہلوؤں سے گفتگو کرنے جا رہے ہیں :
1- جنگ بندی میں پشت پردہ ایران کا کردار :
ایک مسئلہ جس نے تجزیہ نگاروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے وہ نئی جنگ بندی کے سمجھوتے میں ایران کی غیر حاضری ہے۔ در حقیقت، یہ کہا جا رہا ہے کہ جنگ بندی کا یہ معاہدہ ترکی، روس اور شام کی کاوشوں کا نتیجہ ہے لیکن اس کے باوجود کہ شام میں جنگ بندی کا نفاذ کرانے والوں میں ایران کا باضابطہ نام نہیں آیا، ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹویٹ کر جنگ کو مثبت قدم قرار دیا اور کہا کہ ایران، شام میں جنگ بندی کے نفاذ کا خیر مقدم کرتا ہے۔ شام میں جنگ بندی پر جواد ظریف کے رد عمل پر اگر دقت کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ایران مذاکراتی عمل اور مفاہمت سے پوری طرح آگاہ تھا۔
2 - جنگ بندی کے پابند جنگجوؤں اور دہشت گردوں کو جدا کرنا :
مذکورہ جنگ بندی پر جس موضوع پر زیادہ توجہ دی گئی ہے وہ جنگ بندی کی پابندی کی ضمانت ہے۔ روس کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کی بنیاد پر جنگ بندی میں جن مسلح گروہوں کو جنگجوؤں کو شامل کیا گیا ہے ان کی تعداد تقریبا 50 ہزار ہے۔ الشام بریگیڈ، جیش الاسلام، مجاہد الشام، جیش المجاہدین، جیش ادلب اور شام محاذ جنگ کے پابند گروہ ہیں جبکہ داعش اور نصرہ فرنٹ یا فتح الشام کو جنگ سے مستثنی رکھا گیا ہے۔
3 - تہران - ماسکو - دمشق قطب سے ترکی کی نزدیکی :
بحران شام کے آغاز سے ہی ترکی کے حکام بشار اسد کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے اپنے موقف پر مصر رہے اور انہوں نے سفارتی اور سیاسی طریقوں سے شام کی مرکزی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور ہر سطح پر اس کو ناکام دکھانے کی پھر پور کوشش کی۔ ترکی کی اسی سیاست کی وجہ سے اس کے ایران اور عراق جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے لیکن حالیہ دنوں میں جب سے ترکی کے وزیر اعظم احمد داود اوغلو سے عہدے سے ہٹایا گیا ہے تب سے مشرق وسطی اور شام کے حالات کے بارے میں ترکی کے موقف میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
4 - شام کے مسئلے سے امریکا اور مغرب کو حاشیے پر لگانا :
روس کے صدر ولادیمیر پوتین کے مطابق جنگ بندی کے اس معاہدے کی نظارت روسی حکام کر رہے ہیں اور سفارتی مذاکرات اور یقینی راہ حل تک پہنچنے کے لئے کوششیں جاری رہیں گی۔ اس بات سے یہ پتا چلتا ہے کہ ترکی، اپنی حقیقت پسندی کی پالیسی کے ساتھ روس سے نزدیک ہو رہا ہے اور اس سے امکان پیدا ہوا کہ امریکا اور دوسرے مغربی ممالک کی موجودگی کے بغیر شام کے حالات شامی عوام کے درمیان مذاکرات سے حل ہونے کی راہ پر گامزن ہیں۔ روسی حکام نے اعلان کیا ہے کہ 8 فروری 2017 کو قزاقستان کے دار الحکومت آستانہ میں روس اور انقرہ کی سربراہی میں شامی حکومت اور شامی حکومت کے مخالفین کے نمائندوں کے درمیان امن مذاکرات منعقد ہوں گے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اردوغان مغربی کی جانب سے بری طرح مایوس ہو چکے ہیں اور ماسکو اور تہران کے ساتھ اتحاد بنا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔